باب الحوائج شہنشاہ وفاء حضرت عباس علمدار علیہ السلام
Friday, 24 February 2023، 08:29 PM
چار شعبان المعظم وہ عظیم و حَسِین شب تھی جب حضرت علی ابن ابی طالب کےکاشانۂ نور سے قمر بنی ہاشم کے طلوع کی خبر پھیلتے ہی مدینۂ منورہ کے بام و در جگمگا اٹھے حضرت علی علیہ السلام بڑے مشتاقانہ انداز میں گھر کے اندر داخل ہوئے اوراپنی” مستجاب تمنا“ کوآغوش میں بھر لیا بچے کا چہرہ چاند کی طرح دمک رہا تھا اللہ اکبر کی مترنم آواز کان میں پہنچی تو اسد اللہ کے پسر نے شیر حق کی گود میں انگڑائیاں لینی شروع کردی حضرت علی علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے ام البنین کی طرف دیکھا اور فرمایا : میں اس بچے کا نام عباس قرار دیتا ہوں ۔ اسی وقت قریب کھڑے امام حسین علیہ السلام آگے بڑھے اور باپ سے لے کر اپنے قوت بازو کواپنی باہوں میں سمیٹ لیا ، روایت میں ہے کہ ام البنین کے لال نےابھی تک آنکھیں نہیں کھولی تھیں جیسے ہی اپنے آقا حسین علیہ السلام کی خوشبو محسوس کی آنکھیں کھول دیں اور فرط مسرت و شادمانی سے فاتح کربلا کی آنکھیں چھلک آئیں ۔
ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی
اک آنکھ ہے مسرور تواک آنکھ ہے باکی
ایثار و وفا کے پیکر ، علی(ع) کی تمنا ، ام البنین (ع) کی آس حسن (ع) و حسین (ع) کے قوت بازو زینب سلام اللہ علیہا و ام کلثوم سلام اللہ علیہا کی ڈھارس، قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس(ع) کا یوم ولادت آپ سب کو مبارک ہو ۔
عباس (ع) فخر نوع بشر شان مشرقین
ام البنیں کا لال وہ حیدر کا نور عین
زینب (ع) کےدل کی آس سکینہ کے دل کا چین
صورت میں بوتراب تو کردار میں حسین (ع)
ایثار کا امام وفا کا رسول ہے
خوشبو بتا رہی ہے کہ عصمت کا پھول ہے
شبیر فخر کرتے تھے جس کی حیات پر
ہے ثبت جس کی پیاس دل کائنات پر
آب رواں گواہ ہے جس کے ثبات پر
قبضہ ہے جس کا آج بھی نہرفرات پر
اب تک جہاں میں جس کا علم سربلند ہے
اسلام جس کے خون کااحسان مند ہے
اسلامی روایات کی روشنی میں علی ابن ابی طالب (ع) نے ایک خاص اہتمام کے تحت اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ایک متقی و پرہیزگار گھر میں بہادر قبیلے کی نہایت ہی باوقار خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے تمنا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا فرزند عطا کردے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں رسول اسلام (ص) کے بیٹےحسین (ع) کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا لیکن عباس (ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی ۔ 14 سال تک باپ سے فضیلت و کمالات کے جوہر کسب کرتے رہے اور اس منزل پر پہنچ گئے کہ لوگ ثانی حیدر کہنے لگے ۔ شجاعت و فن سپہ گری کے علاوہ معنوی کمالات میں بھی اعلیٰ مدارج طئے کئے زیادہ تر وقت دعا و مناجات اور عبادت میں صرف ہوتا بچوں کی سرپرستی اور کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گیری حضرت عباس (ع) کا خاص مشغلہ تھا ، باپ کے بعدامام حسن (ع) کے مطیع و فرمانبردار ہے اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کے وفادار و علمبردار کہلائے ۔حضرت عباس(ع) مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے بخشش و عطا میں بھی شہرہ حاصل تھا اور اپنے معنوی اثر و رسوخ سے کام لے کر عوام کی فلاح و بہبود اور اصلاح حال کے وسائل فراہم کرتے تھے اسی لئے آپ کوآج بھی باب الحوائج کا لقب حاصل ہے اورکربلائے معلیٰ میں آپ کی بارگاہ آج بھی حاجت مندوں کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے ۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں محبت و وفاداری کے وہ یادگار نقوش چھوڑے ہیں کہ اب لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اورچونکہ یہ کمال ان کو باپ دادا سےمیراث میں ملا تھا پروفیسر بدر فیض آبادی کہتے ہیں :
حق میں معصوموں کے عباس ابوطالب تھے
اک پنہ گاہ تھا عابد کے چچا کا دامن
حضرت عباس (ع)کی عمر اس وقت 32 سال کی تھی جب امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا ہے تاریخ کی روشنی میں امام (ع) کے ساتھیوں کی تعداد 72 یازیادہ سے زیادہ سو، سواسو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد کم از کم تیس ہزار تھی مگر حضرت عباس (ع) کی ہیبت پورے لشکر ابن زیاد پر چھائی ہوئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ آنے والے تمام لوگ مرد ، عورت اور بچے سبھی پرچم عباس (ع) کے زیر سایہ سکون و اطمینان کااحساس کرتےتھے ۔ شجاعت ودلیری کے ساتھ شفقت و ہمدردی آپ کا خاصہ تھا اور امام وقت کی اطاعت و پیروی شجاعت و مہربانی ہر چیز پر غالب تھی ۔ جناب عباس (ع) کےعشق و معرفت سے سرشار قلب میں صرف ولایت حسین (ع) کی دھڑکن تھی اوران کی پاکیزہ طبیعت انوار توحید سے شعلہ فشاں تھی ۔ کربلامیں سیکڑوں ایسے موقع آئے جب علی علیہ السلام کے شیر کو غیظ و غضب میں دیکھ کر ”تاریخ“نے کروٹیں لینا چاہا لیکن امام وقت کی نگاہیں دیکھ کر مجسمۂ اطاعت نے اپنی شمشیر غضب کو نیام میں رکھ لیا چنانچہ فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔
عباس دست و بازو ئے سلطان کربلا
روشن ہے جس سے شمع شبستان کربلا
جس کے لہو سے سرخ ہے دامان کربلا
جس کی وفا ہے آج بھی عنوان کربلا
حسن عمل سے جس نے سنوارا حیات کو
ٹھکرادیا تھا پیاس میں جس نے فرات کو
آپ علیہ السلام کی فضیلت کے لئے وہ دعا کافی ھے جسے امام جعفرصادق علیه السلام نے جناب عباس علیہ السلام کی زیارت کے موقع پر اذن دخول میں پڑھی جس کے الفاظ یہ ھیں :
اے فرزند امیرالمومنین! ”خدااس کے مقرب رشتوں ،رسولوں ،صالح بندوں تمام شہداء وصدیقین کے پاک وپاکیزہ سلام ھرصبح وشام آپ پر ھوں “حضرت امام جعفرصادقں نے حضرت احدیت کے سلام سے شروع کیا،کارزارکربلامیں حضرت عباس ں نے اپنے بھائی امام حسین وحجت خداکی تصدیق کرکے مرتبہ حق الیقین حاصل کیا،وفاداری کامظاھرہ انسان یاقرابت وبرادری کی وجہ سے کرتا ھے،
یااس لئے کرتا ھے کہ خدانے واجب قراردیا ھے ،کہ اس کے اولیاء سے وفاداری کی جائے، حضرت امام جعفرصادق ں کی زیارت کے فقرات سے وا ضح ھوتاھے ،کہ حضرت عباس علیہ السلام نے فقط بھائی ورشتہ داراورفرزندرسول سمجھ کرامام حسین کی نصرت نھیں کی بلکہ آپ امام حسین علیہ السلام کوحجت خدا اورامام علیہ السلام واجب الطاعة سمجھ رھے تھے ،اگرچہ کربلا کے ھر شھید نے دشت نینوا میں کسی طرح نصرت امام حسین علیہ السلام میں دریغ نھیں کیا،
لیکن یہ سارے شھید اپنی ساری قربانیوں کے باوجودشھیدعلقمہ کے ھم مر تبہ نھیں ھوسکتے ،کیونکہ آپ کی بصیرت راسخ، آپ کاعلم وافر، آپ کاایمان محکم، آپ کاکردارمضبوط،اور آپ کامقصدعالی تھا،لہٰذاامام جعفرصادق ں نے مذکورہ بالاالفاظ میں آپ کومخاطب فرمایا،کہ یہ فضیلت قمربنی ھاشم سے مخصوص تھی جس میں کربلاکا کوئی دوسرا شھیدشریک نھیں تھا۔
( ”صحیفہٴ وفا“ابوالفضل ،ائمہ طاہرین علیہ السلام کی نظر میں)
ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
پنج امامی کہ تو را دیدہ اند
دست علم گیر تو بوسیدہ اند
چشم خداوند چو دست تو دید
بوسہ زد و اشک زچشمش چکید
اے عباس تجھ کو پانچ اماموں ؑنے دیکھا ہے اور علم اٹھانے والے تیرے بازووں کا بوسہ لیتے ہیں۔عین اﷲ (حضرت علیؑ) نے جب قنداقے کو اٹھایا اور تربے بازووں پر انکی نظر لگی تو انکھیں آنسووں سے نمناک ہوئیں۔
حضرت عباس کی وفاداری ائمہ علیہم السلام کی نگاہ میں:
ائمہ معصومین علیہم السلام نے حضرت عباس علیہ اسلام کے متعلق بہت کچھ بیان فرمایا ہے اور معصوم کی زبان سے نکلی ہوئی بات مبالغہ آرائی اور غیر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ قول معصوم حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔ ذیل میں چند ایک نمونے بطور مختصر بیان کرتے ہیں؛
١۔امام زین العابدین علیہ السلام خود کربلا میں موجود تھے امام حسینؑ اور ان کے یارو انصار کی شہادت کے بعد مخدرات عصمت اور ننےدمنھے بچوں کو کوفے اور شام کے بازاروں اور درباروں میں سہارا دیا ۔ آپ ہی تو کربلا میں اپنے چچا عباس کی وفا داریوں کے چشم دیدہ گواہ تھے۔آپ علیہ السلام حضرت عباسؑ کی وفا کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: «رحم اﷲ عمی العباس فلقد آثر وابلی وفدی اخاہ بنفسه حتی قطعت یداهٰ» خدا رحمت کرے میرے چچا عباسؑ پر کہ جنہوں نے حقیقی طور پر ایثار ، جانبازی اور وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان فدا کی اور اپنے دونوں بازووں کو ان کے راہ میں کٹوایا۔
٢۔امام صادق علیہ السلام حضرت عباسؑ کی وفاداری اور فداکاری کو بیان کرتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں۔«اشهد لقد نصحت ﷲ و لرسوله ولا خیک فنعم الاخ المواسی» میں شھادت دیتا ہوں کہ تو نے خدا، اس کے رسول ﷺاور اپنے بھائی کے ساتھ بہترین نیکی اور خیر خواھی کی، پس آپ (اے عباسؑ)کس قدر اچھا فداکار اور وفادار بھائی تھے۔
٣۔حضرت عباس علیہ السلام کی فداکاری اور وفاداری کا تذکرہ امام زمانہ (عج اﷲتعالی فرجه الشریف)نے زیارت ناحیہ مقدسہ کے اندریوں بیان کیا ہے:
السلام علی ابی الفضل العباس المواسی اخاه بنفسه» ؛ (میرا سلام ہو ابولفضل العباس ؑپر کہ جنہوں نے اپنے بھائی کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کرکے ایثار اور وفاداری کا اعلی مظاہرہ کیا۔)
ان تمام باتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حضرت عباسؑ کی ذات ،وفاء اور وفاداری کی عظیم درسگاہ ہے۔ جس کو بھی درس وفاء لینا ہو اسے چا ہیے کہ درسگاہ حضرت عباسؑ کے در پر سر تسلیم خم کرے اور اپنی جھولی پھیلاے جس نے بھی ایسا کیا اس نے ضرور اپنی مرادلے لی۔