سفیر ولایت ؛ حضرت سلطان علی ابن امام محمد باقر علیہ السلام
Wednesday, 10 January 2024، 06:36 PM
سفیر ولایت ؛ حضرت سلطان علی ابن امام محمد باقر علیہ السلام
اولاد
مصعب زبیری لکھتا ہے : «علی ابن محمد (علیہ السلام) کی ایک بیٹی تھی کہ جس کا نام فاطمہ تھا اور اس سے موسی ابن جعفر ابن محمدباقر (علیہ السلام) نے شادی کی ۔ [1]
آپ کا ایک بیٹا تھا کہ جس کا نام احمد ابن علی ابن محمد باقر(علیہ السلام) تھا کہ جن کی قبر مبارک اصفہان میں موجود ہے۔[2]
ریاض العلماء لکھتے ہیں : سید آجل سید علی ابن مولانا امام محمدباقر (علیہ السلام) بڑی عظمت و شان کے مالک ہیں وہ کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں اور آج بھی لوگ مسلسل کرامات کو دیکھ رہے ہیں ۔[3]
ایران ہجرت کی وجہ
سن 113 ہجری میں کاشان و فین کے مومنین نے حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ لکھا۔ " مولا ہم آپ سے دور ہیں ہماری ہدایت کے لئے کوئی نہیں۔ آقا آپ اپنے کسی بیٹے کو ہمارے یہاں ہماری ہدایت کے لئے بھیج دیں" امام علیہ السلام نے قاصد سے کہا کہ تم کل تک رکو۔ میں اس سلسلہ میں خدا کی مرضی معلوم کرتا ہوں اگر مرضی معبود ہوئی تو اپنے نور نظر کو تمھارے ساتھ بھیج دوں گا۔ شب کو خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرما رہےہیں " نور نظر (امام) محمد باقر (علیہ السلام) انکی درخواست رد نہ کرو بلکہ میرے نور نظر علی بن محمد کو انکے ساتھ بھیج دو تا کہ آخرت میں تم سے سوال نہ ہو۔" امام عالی مقام نے حکم رسول کے مطابق اپنے نور نظر کو قاصد کے ساتھ بھیجنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے سامان سفر کی آمادگی کا حکم دیا۔اور جب سفر کی تیاری مکمل ہو گئی تو حضرت سلطان علی بن امام محمد باقر علیھماالسلام کے لئے روانہ ہوئے اور جب آپ کاشان پہنچے تو تقریبا چھ ہزار مومنین نے آپ کا زبردست استقبال کیا۔ آپ جمعہ و جماعت کے علاوہ لوگوں کی ہدایت اور انکی مشکلات کو برطرف فرماتےتھے۔ کاشان و اطراف کے لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں آتے اور کسب فیض کرتے۔ آپ خط کے ذریعہ اپنی تمام سرگرمیوں، لوگوں کے پرجوش استقبال اور حالات سے اپنے والد و امام کو مطلع فرماتے تھے۔ ابھی آپ کو کاشان میں ایک ہی برس ہوا تھا کہ ۷ ذی الحجہ ۱۱۴ هہجری کو آپ کے والد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شھادت ہو گئی۔
آپکی مقبولیت
ظاہر ہے اس وقت تمام عالم اسلام پہ بنی امیہ کا غاصبانہ قبضہ و حکومت تھی۔ کاشان میں بنی امیہ کے مقرر حاکم نے آپ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سوچاکہ اگر میں اسکی خبر شام نہ پہنچاوں تو ممکن ہے خلیفہ کو جب معلوم ہو تو وہ ہمیں معزول نہ کر دےاورکہیں قتل نہ کر دے لھذا گورنر نے خط لکھ کر تمام حالات سے خلیفہ اموی کو آگاہ کیا کہ سلطان علی (علیہ السلام )کی مقبولیت بڑھتی ہی جا رہی جو حکومت کے لئے خطرناک ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے مظلوم سفیر و فرزند حضرت سلطان علی علیہ السلام نے 27 ؍ جمادی الثانی 116 ہجری کو کاشان میں جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت سے قبل آپ نے اپنے ایک بھائی کے تحفظ ، خط کے ذریعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو تمام حالات سے مطلع کرنے (کہ کیسے حالات بدلے اور جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی طرح آپ شھید کئے گئے) اور اپنے جنازے کو دفن کرنے کی وصیت فرمائی۔ آپ کو آپ کے مقتل سے کچھ فاصلہ پہ دفن کیا گیا جہاں آج الحمد للہ روضہ و بارگاہ ہے اور پوری دنیا سے عاشقان آل محمد علیھم السلام زیارت کے لئے آتے ہیں اور کرامات کا ظھور ہوتا ہے۔
مزار کے نیچے سرداب
آپ کے مزار مبارک کے نیچے ایک سرداب ہے جس کا طول و عرض 6 اور 3 ، بلندی 3/5 میٹر ہے اس سرداب کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور ہیں لیکن 1934 میں قم کا حکمران مشھد اردہال جاتا ہے اور حکم دیتا ہے اس سرداب کو ایک طرف سے کھولیں اور میں خود دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس میں کیا ہے جب یہ حکمران اندر گیا تو تقریباً 100 تابوت اس سرداب میں دیکھے اور ان کے ساتھ ایک تختی دیکھی کہ جس پر لکھا تھا کہ یہ تابوت حضرت سلطان علی کے چاہنے والوں کے ہیں حکمران کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ ان تابوتوں میں میت ایسے تھے کہ جیسے ابھی ابھی انہیں سلایا گیا ہو ۔[4]
مرحوم آیت اللہ العظمی سید شھاب الدین مرعشی نجفی رہ 1962 میں جب آپ کی زیارت کے لئے مشہد اردہال تشریف لے تو لوگوں کی خواہش اور تصدیق کی خاطر خود نیچے سرداب میں تشریف لے گئے۔ انکا بیان ہے کہ سرداب میں سو سے زیادہ تر و تازہ جنازے موجود ہیں۔ جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں باقی ہے کہ جنکا خون ابھی بھی تر ہے۔شائد یہ جنازے ان اصحاب با وفا کے ہوں جنھوں نے آپ کی رکاب میں جام شھادت نوش فرمایا تھا اوراپنے پاکیزہ خون سے سرزمین اردھال کو شرف بخشا تھا۔
مشہد اردحال کی فضیلت
روایات کے مطابق مشھد اردہال قم مقدس کی طرح مومنین کے لئے باعث امن و امان ہے۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اپنی خواہر گرامی کریمہ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے میزبان جناب موسی بن خزرج سے اردھال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میری کچھ زمینیں وہاں ہیں تو امام علیہ السلام نے فرمایا "نعم الموضع الاردھار" اردھال بہترین مقام ہے۔
آپکی شہادت
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے مظلوم سفیر و فرزند حضرت سلطان علی علیہ السلام نے 27 ؍ جمادی الثانی 116 ہجری کو کاشان میں جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت سے قبل آپ نے اپنے ایک بھائی کے تحفظ ، خط کے ذریعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو تمام حالات سے مطلع کرنے (کہ کیسے حالات بدلے اور جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی طرح آپ شھید کئے گئے) اور اپنے جنازے کو دفن کرنے کی وصیت فرمائی۔ آپ کو آپ کے مقتل سے کچھ فاصلہ پہ دفن کیا گیا جہاں آج الحمد للہ روضہ و بارگاہ ہے اور پوری دنیا سے عاشقان آل محمد علیھم السلام زیارت کے لئے آتے ہیں اور کرامات کا ظھور ہوتا ہے۔
قالین دھونے کی رسم
کاشان کے علاقے فین میں خاوہ اردھال نامی گاؤں میں مشھد اردھال واقع ہے جس میں عزاداری کی ایک قدیم رسم ادا کی جاتی ہے ۔جو ہرسال اکتوبر ، مھر ماہ ( شمسی سال کےساتویں مہینے )کے دوسرے جمعے کو انجام پاتی ہے اور جو ’’جمعہ قالی ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔یہ واحد اسلامی اور مذہبی رسم ہے کہ جو شمسی سال کے مطابق منعقد کی جاتی ہے ۔
قالی شویان کے مراسم کی وجہ تسمیہ امام زادہ سلطان علی بن امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت ہے، جو ۲۷ جمادی الثانی ۱۱۶ ہجری میں ہوئی ہے ۔کاشان کے علاقے فین کے لوگ اس دن کی یاد مناتے ہیں جنہوں نے امام زادہ سلطان علی کو اس علاقے میں آنے کی دعوت دی تھی ۔
وہ قالین چشمے کے نزدیک زمین پر رکھ دیا جاتا ہے اور پھر امامزادہ شہید کو علامتی غسل دیتے ہوئے، اس چشمے کے پانی سے قالین کو پاک کیا جاتا ہے ۔پھرقالین کو اٹھانے والے واپس مزار کے دروازے پر آتے ہیں اور اسے خاوہ اردھال گاؤں کے ساکنین کے سپرد کرتے ہیں تاکہ وہ اسے امامزادے کے مزار کے اندر لے جائیں ۔یہ رسم خاص آداب کے ساتھ انجام پاتے ہیں ۔ یہ رسم یونسکو کی عالمی معنوی ورثے کی فهرست میں درج ہے۔
حوالہ جات
1 ۔ زبیری، نسب قریش، به نقل از حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص 148/المشاهد العتره الطاهره، ص 270.
2 ۔ حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص146/مجموعه تاریخی مذهبی مشهد اردهال، ص 36.
3 ۔ به نقل از حسینی زرباطی، بغیة الحائر فی احوال اولاد الامام باقر ص 143
4 ـ شهید اردهال، ص46