افکار ناب

اسلام ناب محمدیﷺ کا علمبردار

افکار ناب

اسلام ناب محمدیﷺ کا علمبردار

افکار ناب
محفوظ شدہ دستاویزات

آپ کی ولادت باسعادت

 

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن تھے5شعبان المعظم 38 ھ کو مدینہ منورہ پیداہوئے ایک اور قول کے مطابق ۱۵جمادی الثانی ۳۸ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی ولادت ھوئی. آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور سارے خاندان کے لوگ اس مولود کو دیکھ کر بہت خوش ھوئے اور شاید علی علیہ السّلام ہی نے پوتے میں اپنے خدوخال دیکھ کر اس کانام اپنے نام پر علی رکھاتھا۔

نام،کنیت ،القاب

آپ کااسم گرامی ”علی“ کنیت ابومحمد۔ ابوالحسن اورابوالقاسم تھی- سید العابدین، زین العابدین، سید المتقین، امام المومنین، سجاد اور زین الصالحین، یہ چوتھے امامٴ کے چند القاب ہیں، جن میں سے زین العابدین اور سجاد کو زیادہ شہرت ملی۔ یہ ایسے القاب نہیں ہیں جو تمام عرب اپنے بچوں کو ولادت کے وقت ہی یا بچپن میں دے دیا کرتے تھے۔ بلکہ یہ القاب قدر شناس جوہریوں اور انسان کی تلاش میں سرگرداں لوگوں نے آپٴ کو دیئے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس تاریک دور میں ظالموں کے ہاتھوں پریشان تھے اور امامٴ کی ذات میں ان کو ایک ایسا شخص دکھائی دیتا تھا جسے بڑے بڑے دانشور بھی روزِ روشن میں ڈھونڈ نہیں سکتے تھے۔
یہ القاب دینے والے اکثر لوگ نہ شیعہ تھے اور نہ وہ آپٴ کو خدا کی جانب سے برگزیدہ امام مانتے تھے۔ اس کے باوجود جو صفات انہیں آپٴ کے اندر دکھائی دیتی تھیں، وہ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے ہر لقب مرتبہ کمال، درجہ ایمان، مرحلہ اخلاص و تقوی کی نشاندہی کرتا ہے نیز صاحبِ لقب پر لوگوں کے ایمان اور اعتماد کا بھی مظہر ہے کہ آپٴ ان خصوصیات کا حقیقی مظہر تھے اور اس بات پر سب متفق ہیں۔
تربیت
 حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کا ابھی دوبرس کاسن تھا جب آپ کے دادا حضرت امیر علیہ السّلام کاسایہ سر سے اٹھ گیا. امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سایہ میں پروان چڑھے . بارہ برس کی عمر تھی جب امام حسن علیہ السّلام کی وفات ھوئی . اب امامت کی ذمہ داریاںآپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سے متعلق تھیں .شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جھاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارہے تھے . یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پھنچ کر جوانی کی حدوں میں قدم رکھ رھےتھے
آپ کی اولاد
 علماءفریقین کااتفاق ہے کہ آپ نے گیارہ لڑکے اورچارلڑکیاں چھوڑیں۔[۰] شیخ مفیدفرماتے ہیں کہ ان پندرہ اولادکے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام محمدباقر آپ کی والدہ حضرت امام حسن کی بیٹی ام عبداللہ جناب فاطمہ تھیں۔ ۲ ۔ عبداللہ ۳ ۔ حسن ۴ ۔زید ۵ ۔عمر ۶ ۔ حسین ۷ ۔عبدالرحمن ۸ ۔سلیمان ۹ ۔علی ۱۰ ۔محمد اصغر ۱۱ ۔حسین اصغر ۱۲ ۔خدیجہ ۱۳ ۔فاطمة، ۱۴ ۔علیہ ۱۵ ۔ ام کلثوم-[۱]
آپ کاحلیہ مبارک
امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ آپ کارنگ گندم گوں (سانولا) اورقدمیانہ تھا آپ نحیف اورلاغرقسم کے انسان تھے۔[۲]
ملامبین تحریرفرماتے ہیں کہ آپ حسن وجمال ،صورت وکمال میں نہایت ہی ممتازتھے، آپ کے چہرہ مبارک پرجب کسی کی نظرپڑتی تھی تووہ آپ کااحترام کرنے اورآپ کی تعظیم کرنے پرمجبورہوجاتاتھا-[۳] محمدبن طلحہ شافعی رقمطرازہیں کہ آپ صاف کپڑے پہنتے تھے اورجب راستہ چلتے تھے تونہایت خشوع کے ساتھ راہ روی میں آپ کے ہاتھ زانوسے باہرنہیں جاتے تھے -[۴]
امام زین العابدین کے بچپن کاایک واقعہ
علامہ مجلسی رقم طراز ہیں کہ ایک دن امام زین العابدین جب کہ آپ کابچپن تھا بیمارہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا”بیٹا“ اب تمہاری طبیعت کیسی ہے اورتم کوئی چیزچاہتے ہوتوبیان کروتاکہ میں تمہاری خواہش کے مطابق اسے فراہم کرنے کی سعی کروں آپ نے عرض کیا باباجان اب خداکے فضل سے اچھاہوں میری خواہش صرف یہ ہے کہ خداوندعالم میراشماران لوگوں میں کرے جوپروردگارعالم کے قضاوقدرکے خلاف کوئی خواہش نہیں رکھتے ،یہ سن کرامام حسین علیہ السلام خوس ومسرورہوگئے اورفرمانے لگے بیٹا،تم نے بڑامسرت افزا اورمعرفت خیزجواب دیاہے تمہاراجواب بالکل حضرت ابراہیم کے جواب سے ملتاجلتاہے ،حضرت ابراہیم کوجب منجیق میں رکھ کر آگی طرف پھینکا گیاتھا اورآپ فضامیں ہوتے ہوئے آگ کی طرف جارہے تھے توحضرت جبرئیل نے آپ سے پوچھا”ہل لک حاجة“ آپ کی کوئی حاجت وخواہش ہے اس وقت انہوں نے جواب دیاتھا ”نعم اماالیک فلا“ بےشک مجھے حاجت ہے لیکن تم سے نہیں اپنے پالنے والے سے ہے ۔[۵]

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار

1- توھین کا جواب
امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک خاندانی شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا اور آپ پر چلایا اور آپ کو ناسزا باتیں کھیں! لیکن امام علیہ السلام نے اس کو ایک بات کا بھی جواب نہ دیا یھاں تک کہ وہ شخص اپنے گھر واپس هوگیا۔اس کے جانے کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: تم لوگوں نے سنا کہ یہ شخص کیا کہہ رھا تھا؟ میں چاہتا هوں کہ میرے ساتھ چلو تاکہ میں جو اس کو جواب دوں وہ بھی سن لو، انھوں نے کھا: ٹھیک ھے ، ھم آپ کے ساتھ چلتے ھیں ، چنانچہ امام علیہ السلام نے نعلین پھنے اور اس کے گھر کی طرف روانہ هوئے، اور فرمایا:
… وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنْ النَّاسِ وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ-[۶]
”…اور غصہ کو پی جاتے ھیں اور لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ھیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے۔“
 (آپ کے ساتھی کہتے ھیں:) ھمیں معلوم هوگیا کہ امام علیہ السلام اس سے کچھ نھیں کھیں گے، بھر حال اس کے گھر پر پھنچے ، اور بلند آواز میں کھا: اس سے کهو؟ یہ علی بن حسین (علیھما السلام) آئے ھیں، وہ شخص جو فساد کرنے کے لئے تیار تھا اپنے گھر سے باھر نکلا اور اُسے شک نھیں تھا کہ آپ اس کی توھین آمیز گفتگو کی تلافی کرنے کے لئے آئے ھیں، امام سجاد علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے بھائی! کچھ دیر پھلے تم نے میرے سامنے میرے بارے میں کچھ باتیں کھیں، اگر مجھ میں وہ پاتیں پائی جاتی ھیں تو میں خدا کی بارگاہ میں طلب بخشش چاہتا هوں، اور اگر وہ باتیں مجھ میں نھیں پائی جاتیں تو خدا تجھے معاف کردے، (یہ سننا تھا کہ) اس شخص نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کھا: جو چیزیں میںنے کھیں وہ آپ میں نھیں ھیں بلکہ میں خود ان باتوں کا زیادہ سزاوار هوں۔
روایت کا راوی کہتا ھے: وہ شخص حسن بن حسن آپ کا چچا زاد بھائی تھا![۷]
2- جذام والوں کے ساتھ محبت
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: ایک روز حضرت اما م سجاد علیہ السلام جذام والوں کے پاس سے گزرے اور آپ اپنی سواری پر سوار تھے، اور وہ لوگ کھانا کھا رھے تھے، انھوں نے آپ کو کھانا کھانے کی دعوت دی، امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھیں معلوم هونا چاہئے کہ اگر میں روزہ سے نہ هوتا تو تمھارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا، اور جب آپ اپنے گھر پھنچے تو حکم دیا کہ کھانا بنایا جائے اور سلیقہ سے اچھا کھانا بنایا جائے اور پھر ان لوگوں کو کھانے کی دعوت دی اور خود بھی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا۔[۸]
3- حاکم سے درگزر کرنا
ہشام بن اسماعیل، عبد الملک مروان کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا، واقدی، امام علی علیہ السلام کے پوتے عبد الله سے روایت کرتے ھیں کہ انھو ں نے کھا: ہشام بن اسماعیل، میرا بُرا پڑوسی تھا اور امام سجاد علیہ السلام کو بہت زیادہ اذیت پھنچاتا تھا، جب وہ معزول هوگیا، اور ولید بن عبد الملک کے حکم سے اُسے اس کی تلافی کے لئے دست بستہ کھڑا کردیا گیا، وہ مروان کے گھر کے پاس کھڑا کیا گیا تھا، امام سجاد علیہ السلام اس کے پاس سے گزرے اور اس کو سلام کی. اما م سجاد علیہ السلام نے اپنے خاص لوگوں کو تاکید کی تھی کہ کوئی اس کو کچھ نہ کھے۔[۹]
4- امن و امان کی فضا
حضرت امام علی بن الحسین علیہ السلام نے ایک روز اپنے غلام کو دو بار آواز دی لیکن اس نے جواب نھیں دیا، آپ نے اس سے تیسری بار فرمایا: اے میرے بیٹے! کیا تو نے میری آواز نھیں سنی؟ اس نے کھا: کیوں نھیں سنی، آپ نے فرمایا: تو تجھے کیا هوگیا کہ میرا جواب نھیں دیا؟ اس نے کھا: آپ کی طرف سے امنیت کا احساس تھا، امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا کا شکر ھے کہ میرا خدمتگار میری نسبت امن و امنیت کا احساس رکھتا ھے۔[۱۰]
5- مخفی طور پر احسان کرنا
 مدینہ میں کچھ ایسے گھرانے تھے کہ جن کی روزی اور ان کی زندگی کا ضروری سامان امام علیہ السلام کی طرف سے جاتا تھا لیکن ان کو یہ نھیں معلوم تھا کہ یہ سامان کھاں سے آتا ھے؟ جب امام سجاد علیہ السلام کی شھادت هوگئی ، (تو ان کو معلوم هوا کہ وھی مخفی طور پر امداد کیا کرتے تھے!)
اسی طرح بیان هوا ھے کہ: امام سجاد علیہ السلام ھمیشہ رات کی تاریکی میں چرمی تھیلیوں کو درھم و دینار سے بھر کر باھر نکلتے تھے اور در در پر جاکر دق الباب کیا کرتے تھے اور ھر گھر میں ایک مقدار درھم و دینار دیا کرتے تھے، آپ کی شھادت کے بعد لوگوں کو معلوم هوا کہ یہ سب کچھ امام سجاد (علیہ السلام) کی طرف سے آتا تھا۔[۱۱]
6- نماز اور احسان
ابوحمزہ ثمالی کہتے ھیں: میں امام سجاد علیہ السلام کو نماز کی حالت میں دیکھا کہ آپ کی ردا آپ کے شانے سے گر جاتی ھے لیکن اس کو روکنے کے لئے توجہ نھیں کرتے یھاں تک کہ آپ کی نماز تمام هوئی،میں نے نماز میں آپکی ردا پر بے توجھی کا سبب معلوم کیا؟ تو امام علیہ السلام نے جواب دیا: وائے هو تم پر! کیا تمھیں معلوم هو کہ میں کس کے سامنے کھڑا هوا تھا؟ انسان کی کوئی اس نماز کے علاوہ قبول نھیں هوتی جو دل سے پڑھی جائے۔
7- قرآنی عفو و بخشش
حضرت امام سجاد علیہ السلام کی ایک کنیز نماز کی وضو کے لئے آپ کے ھاتھوں پر پانی ڈال رھی تھی اچانک اس کے ھاتھوں سے لوٹا آپ کی چھرہ مبارک پر گر گیا اور آپ کی پیشانی زخمی هوگئی! امام سجاد علیہ السلام نے اپنا سر مبارک جھکا لیا، (اس موقع پر) کنیز نے کھا: خداوندعالم فرماتا ھے: ”…اور غصہ کو پی جاتے ھیں…“[۱۲] امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اپنے غصہ کو پی لیا، اس کنیز نے کھا: ”…اور لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ھیں…۔“[۱۳] امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا، کنیز نے کھا: ”… اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے…۔“[۱۴] امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: جا، میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کردیا۔[۱۵]
8- بازیگروں کے نقصان کا دن
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: مدینہ میں ایک بازی گر اور بے هودہ شخص تھا، (ایک روز) اس نے کھا: یہ شخص (علی بن الحسین علیھما السلام) کو میں ھنسانے میں ناکام هوں، امام علیہ السلام اپنے دو خدمت گاروں کے ساتھ جا رھے تھے، چنانچہ وہ بھی آپ کے ساتھ چل دیا یھاں تک کہ وہ آپ کے شانوں سے آپ کی ردا اتار کر روانہ هوگیا، امام علیہ السلام نے اس پر توجہ نہ کی، لیکن لوگ اس کے پیچھے روانہ هوئے اور اس سے وہ ردا لے کر واپس آئے اور آپ کے مبارک شانوں پر ڈال دی، امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ کون ھے؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ ایک بازی گر ھے جو مدینہ کو ھنساتا پھرتا ھے، امام علیہ السلام نے فرمایا: اس سے کهو کہ خداوندعالم کے یھاں ایک ایسا دن ھے جس میں بیهودہ لوگوں کا خسارہ اور نقصان هوگا۔[۱۶]
9- قافلہ میں نا آشنا
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: علی بن الحسن علیہ السلام کبھی بھی سفر پر نھیں جاتے تھے مگر ایسے لوگوں کے ساتھ جو آپ کو نہ پھنچانتے هوں اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ ضرورت کے وقت آپ ان کی مدد کریں گے۔ایک بار ایک قافلہ سفر کے لئے روانہ هوا، ایک شخص نے امام سجاد علیہ السلام کو دیکھا تو پہچان لیا، اس نے کھا: کیا تمھیں معلوم ھے کہ یہ کون ھیں؟ انھوں نے کھا: نھیں، اس نے کھا: یہ علی بن الحسین (علیہ السلام) ھیں، چنانچہ سب لوگ آپ کی طرف دوڑے اور آپ کے ھاتھ او رپیر کا بوسہ دینے لگے، اور انھوں نے کھا: یابن رسول الله! کیا آپ ھمیں اپنے ھاتھوں اور زبان کے ذریعہ دوزخ میں بھیجنا چاہتے ھیں؟ اگر ایسا هوجاتا تو ھم آخر عمر تک ھلاک اور بدبخت هوجاتے! کس چیز نے آپ کو ایسے سفر کے لئے مجبور کیا ھے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ایک بار ایسے قافلہ کے ساتھ سفر پر گیا جو مجھے پہچانتے تھے، اور پیغمبر اکرم (ص) کی وجہ سے مجھ سے ایسا سلوک کیا کہ جس کا میں حقدار نھیں هوں، میں ڈرا کہ تم بھی مجھ سے ایسا ھی سلوک کرو گے، اسی وجہ سے میں نے خود کو نا آشنا رکھا جو مجھے پسند ھے۔[۱۷]
 10- حیوانوں کے ساتھ نیک برتاؤ
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: علی بن الحسین (امام سجاد) علیہ السلام نے اپنی شھادت کے وقت اپنے فرزند امام محمد باقر علیہ السلام سے فرمایا: میں اس اونٹ پر 20 بار حج کے لئے گیا هوں اور اس کو ایک تازیانہ تک نھیں مارا، جب یہ مر جائے تو اس کو دفن کرنا تاکہ درندے اس کے گوشت کو نہ کھائیں، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: کوئی بھی اونٹ ایسا نھیں ھے جو مقام عرفہ میں سات بار لے جایا گیا هو مگر یہ کہ خداوندعالم اس کو جنت کی نعمتوں میں سے قرار دے اور اس کی نسل کو بابرکت قرار دے، چنانچہ جب امام سجاد علیہ السلام کا اونٹ مر گیا تو امام محمد باقر علیہ السلام نے اس کو دفن کردیا۔[۱۸]
11- افطاری بخش دینا
ایک روز حضرت اما م سجاد علیہ السلام روزہ سے تھے، ایک گوسفند ذبح کرنے کا حکم دیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بنائیں، جب غروب کا وقت آگیا اور آپ روزہ سے تھے تو آپ دیگ کے پاس پھنچے اور آبگوشت کی خوشبو کو سونگھا اور اس کے بعد فرمایا: ظرف لائے جائیں، (چنانچہ جب ظرف آگئے تو آپ نے فرمایا: ان ظرفوں میں فلاں فلاں کے لئے گوشت بھر کر لے جاؤ، یھاں تک کہ پوری دیگ خالی هوگئی، اس موقع پر امام سجاد علیہ السلام کے لئے روٹی اور کھجور لایا گیا اور آپ نے اس سے افطار کیا۔[۱۹]
12- غریبوں کی مدد
جب رات کی تاریکی بڑھ جاتی تھی اور لوگ سوجایا کرتے تھے تو امام علیہ السلام اٹھتے تھے اور گھر میں اپنے اھل و عیال سے بچا هوا رزق و روزی جمع کیا کرتے تھے ا ور تھیلیوں میں رکھ کر اپنے شانوں پر رکھتے تھے اور اپنے منھ کو چھپالیا کرتے تھے تاکہ کھیں پھنچانے نہ جائیں، اور پھر غریبوں کے گھر جاتے اور ان کے درمیان تقسیم کردیا کرتے تھے۔
بسا اوقات ایسا هوتا تھا کہ لوگوں کے دروازوں پر انتظار میں کھڑے رہتے تھے تاکہ وہ آئیں اور اپنا حصہ لے جائیں، لوگ جب آپ کو دیکھتے تھے اور بلا واسطہ آپ کا مشاہدہ کیا کرتے تھے فوراً آپ کی خدمت میں جاتے تھے اور کھا کرتے تھے: تھیلیوں والے آگئے ھیں[۲۰]!!
13- انگور کا واقعہ
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: علی بن الحسین علیھما السلام ھمیشہ انگور پسند فرماتے تھے، (ایک روز) بہترین انگور مدینہ میں لائے گئے، آپ کی کنیز جو امّ ولد تھی اس نے آپ کے لئے کچھ انگور خریدے اور افطار کے وقت آپ کے لئے حاضر کئے، امام علیہ السلام کو انگور پسند آئے، ابھی ان کی طرف ھاتھ بڑھانے ھی چاہتے تھے کہ ایک غریب نے دق الباب کیا اور مدد کی درخواست کی، امام علیہ السلام نے امّ ولد سے فرمایا: یہ اس کو دیدو، اس نے عرض کیا: اس میں سے تھوڑے انگور اس کے لئے کافی ھیں، فرمایا: نھیں، خدا کی قسم! سب کے سب اس کو دیدو۔
دوسرے دن بھی آپ کے لئے انگور خریدے گئے کہ ایک غریب آیا اور امام علیہ السلام نے سارے انگور اس کو دلادئے۔
تیسرے روز کوئی سائل نھیں آیا، چنانچہ امام علیہ السلام نے انگور کھائے اور فرمایا: ھمارے ھاتھ سے کچھ نھیں گیا، اور خدا کا شکر ادا کیا۔[۲۱]
14- بچپن میں آپ کی عظمت کمال
عبد الله بن مبارک کہتے ھیں: ایک سال میں مکہ گیا، حاجیوں کے ساتھ چل رھا تھا کہ اچانک ایک سات یا آٹھ سال کے بچہ کو دیکھا کہ حاجیوں کے ساتھ ساتھ چل رھا ھے اور اس کے پاس کوئی زاد راہ بھی نھیں ھے، میں اس کے پاس گیا اوراُسے سلام کیا اس کے بعد اس سے کھا: تم نے کس کے ساتھ جنگل و بیابان طے کیا ھے، اس نے کھا: خداوندمھربان کے ساتھ۔
میری نظر میں ایک بزرگ انسان معلوم هوا، میں نے کھا: اے میرے بیٹے! تمھارا زاد راہ کھاں ھے؟ اس نے کھا: میرا زاد راہ میرا تقویٰ اور میرے دو پیر ھیں اور میرا ہدف میرا مولا ھے۔
میرے نزدیک اس کی اھمیت بڑھ گئی، میں نے کھا: کس گھرانے سے تعلق رکھتے هو؟ اس نے کھا: علوی اور فاطمی، میں نے کھا: اے میرے سید و سردار! کیا کچھ اشعار بھی کھیں ھیں؟ اس نے کھا: جی ھاں، میں نے کھا اپنے کچھ اشعار سنائیے، چنانچہ اس نے اس مضمون کے اشعار پڑھے:
ھم حوض کوثر پر وارد هوں کہ ایک گروہ کو وھاں سے ہٹایا جائے گا اور ھم حوض کوثر پر وارد هونے والوں کو پانی پلائیں گے، کوئی بھی ھمارے وسیلہ کے بغیر نجات نھیں پاسکتا، اور جو شخص ھمیں دوست رکھتا هو اس نے اپنی کوشش اور زاد راہ میں نقصان نھیں اٹھایا، جو شخص ھمیں خوش کرے تو ھماری طرف سے اس کو خوشی پھنچے گی، اور جو شخص ھمیں رنجیدہ کرے اس کی ولادت بُری تھی اور جو شخص ھمارا حق غصب کرے تو اس کے عذاب کو دیکھنے کا وعدہ روز قیامت ھے!
(راوی کا کھنا ھے کہ ) اور پھر وہ میری نظروں سے غائب هوگیا یھاں تک کہ میں مکہ پھنچا اور اپنا حج تمام کیا اور واپس پلٹ گیا، مقام ”ابطح“ میں دیکھا کہ لوگ ایک جگہ جمع ھیں گردن اٹھاکر دیکھا کہ یہ لوگ کس وجہ سے جمع هوئے ھیں، دیکھا تو وھی بچہ ھے جس سے میں نے گفتگو کی تھی، میں نے سوال کیا: یہ کون ھے؟ تو مجھے بتایا گیا: یہ زین العابدین ھیں[۲۲]!!
15- بخشش کی درخواست
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: ھمارے والد بزرگوار نے اپنے غلام کو کسی کام سے بھیجا اور جب اس نے اس کام میں تاخیرکی تو آپ نے اس کو ایک تازیانہ مارا، غلام نے کھا: اے علی بن الحسین! خدا کا واسطہ، پھلے آپ مجھے کام کے لئے بھیجتے ھیں او رپھر مجھے مارتے ھیں!
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: ھمارے والد نے رونا شروع کیا، اور فرمایا: اے میرے بیٹے! قبر رسول (ص) پر جاؤ اور دو رکعت نماز پڑھو اور پھر یہ دعا کرو! خداوندا! قیامت کے دن علی بن الحسین (علیہ السلام) کے اس کام کو بخش دے، اور پھر غلام سے فرمایا: جا تو راہ خدا میں آزاد ھے. ابوبصیر کہتے ھیں: میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی: میں آپ پر قربان، گویا آزاد کرنا مارنے کا کفار ھے!! لیکن اما م علیہ السلام نے خاموشی اختیار کی۔[۲۳]
16- مارنے کی تلافی مار کے ذریعہ
حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ھیں: علی بن الحسین علیھما السلام نے (ایک دفعہ) اپنے غلام کو مارا، اس کے بعد گھر میں وارد هوئے اور تازیانہ نکالا نیز اپنے بدن سے لباس بھی اتار دیا، اور پھر غلام سے کھا: اس تازیانہ سے علی بن الحسین کو مارو! لیکن غلام نے آپ کو مارنے سے انکار کردیا، چنانچہ امام سجاد علیہ السلام نے اس کو پچاس دینار عطا کئے۔[۲۴]
17- ماں کا حق
حضرت امام سجاد علیہ السلام سے کھا گیا: آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیکوکار ھیں لیکن آپ اپنی والدہ کے ساتھ ھم غذا نھیں هوتے جبکہ وہ ایسا چاہتی ھیں! تو امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھے یہ پسند نھیں ھے کہ میں اس لقمہ کی طرف ھاتھ بڑھاؤ ںکہ جس کی طرف میری والدہ کی آنکھی پھل کرچکی ھیں، کہ جس کے نتیجہ میں عاق هوجاؤں. اس کے بعد آپ اپنی والدہ گرامی کے ساتھ کھانا کھاتے وقت کھانے کو ایک طبق سے ڈھک دیا کرتے تھے اور اس طبق کے نیچے سے ھاتھ لے جاتے اور کھانا کھاتے تھے۔[۲۵]
18- قرض ادا کرنے کی ضمانت
عیسی بن عبد الله کہتے ھیں: جب عبد الله کی موت کا وقت آگیا تو اس کے طلبگار جمع هوگئے اور اپنے اپنے مال کا مطالبہ کرنے لگے، چنانچہ اس نے کھا: میرے پاس کچھ نھیں ھے تاکہ تمھیں ادا کروں، میرے چچا زاد بھائیوں یا علی بن الحسین یا عبد الله بن جعفر پر راضی هوجاؤ کہ وہ تمھارا قرض ادا کردیں گے۔
قرض داروں نے کھا: عبد الله بن جعفر تو ایسے شخص ھیں کہ لمبے لمبے وعدہ دیتے ھیں اور وہ لاؤ بالی شخص ھیں اور علی بن الحسین علیہ السلام کے پاس کچھ نھیں ھے، لیکن بہت سچے ھیں، لہٰذا یھی ھماری مشکل کو آسان کرنے کے لئے زیادہ بہتر ھیں۔
جب یہ خبر امام علیہ السلام تک پھنچی تو آپ نے فرمایا: میں غلّہ کی فصل کٹنے کے وقت ان کا قرض ادا کردوں گا جبکہ آپ کے پاس کوئی فصل بھی نھیں تھی، لیکن جب غلّہ کی فصل کٹنے کا وقت آیا تو آپ نے سبھی قرضداروں کا قرض ادا فرمادیا۔[۲۶]
19- بے نظیر بُردباری
ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی، چنانچہ آپ کے غلاموں نے اس کو مارنا چاھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو چھوڑو، جو چیز ھم سے مخفی ھے اس سے کھیں زیادہ ھے جو ھمارے بارے میں کہتے ھیں، اور پھر اس شخص سے فرمایا: کیا تمھیں کسی چیز کی ضرورت ھے؟ چنانچہ وہ شخص شرمندہ هوگیا، امام علیہ السلام نے اپنا لباس اس کو عطا کیا اور حکم دیا کہ ایک ہزار درھم اس کو عطا کردو، (یہ دیکھ کر) اس شخص نے بلند آواز میں کھا: میں گواھی دیتا هوں کہ آپ فرزند رسول الله ھیں[۲۷]!
20- غیبت کے مقابل ردّ عمل
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک گروہ کے پاس پھنچے جو آپ کی غیبت کر رھے تھے، ان کے پاس کھڑے هوگئے اور ان سے کھا: اگر تم اپنے قول میں سچے هو تو خداوندعالم مجھے بخش دے اور تم جھوٹ کہہ رھے هو تو خداوندعالم تمھیں بخش دے۔[۲۸]!
21- غیر عمدی قتل (سے در گزر)
حضرت امام سجاد علیہ السلام کے یھاں چند مھمان تھے، امام علیہ السلام نے اپنے خادم سے کھا: تنوری بریاں گوشت جلدی لے کر آؤ، خادم اس لوھے کو جلدی سے لے کر چلا جس پر بریاں گوشت تھا کہ اچانک اس کے ھاتھ سے چھوٹ گیا، اور آپ کے ایک بیٹے کے سر پر جا گرا جو نچلی منزل میں تھا اور آپ کا وہ فرزند مر گیا، (غلام حیرت زدہ اور لرز رھا تھا) آپ نے اس غلام سے فرمایا: اس کام کو تو نے جان بوجھ نھیں کیا ھے، لہٰذا تو راہ خدا میں آزاد ھے، اور پھر امام علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو اپنے ھاتھوں سے غسل و کفن کیا۔[۲۹]
22- بے انتہا اخلاص
امام سجاد علیہ السلام کا ایک چچا زاد بھائی بہت زیادہ غریب تھا کہ امام علیہ السلام رات کی تاریکی میں نا آشنا کی صورت میں اس کے دروازہ پر آکر دینار عطا کیا کرتے تھے، وہ کہتا تھا: علی بن الحسین میرے ساتھ صلہٴ رحم نھیں کرتے، خداوندعالم ان کو میری طرف سے جزائے خیر نہ دے، امام علیہ السلام نے اس کی باتوں کو سنا اور برداشت کیا اور صبر سے کام لیا اور اپنا تعارف نہ کرایا، چنانچہ جب آپ اس دنیا میں نہ رھے تو اس کو معلوم هوگیا کہ جو شخص رات کی تاریکی میں مدد کیا کرتا تھا وہ امام سجاد علیہ السلام تھے!! چنانچہ وہ آپ کی قبر کے پاس آیا اور آپ کی شھادت پر بہت زیادہ رویا۔[۳۰]
آپ کے عہدحیات کے بادشاہان وقت
آپ کی ولادت بادشاہ دین وایمان حضرت علی علیہ السلام کے عہدعصمت مہدمیں ہوئی پھرامام حسن علیہ السلام کازمانہ رہاپھربنی امیہ کی خالص دنیاوی حکومت ہوگئی، صلح امام حسن کے بعدسے 60 ھ تک معاویہ بن ابی سفیان بادشاہ رہا، اس کے بعداس کافاسق وفاجربیٹا یزید 64 ھ تک حکمران رہا 64 ھ میں معاویہ بن یزیدابن معاویہ اورمروان بن حکم حاکم رہے 65 ھ سے 86 ھ تک عبدالملک بن مروان حاکم اوربادشاہ رہا پھر 86 ھ سے 96 ھ تک ولیدبن عبدالملک نے حکمرانی کی اوراسی نے 95 ھء میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کوزہردغاسے شہیدکردیا-[۳۱]
امام زین العابدین اورخاک شفا
مصباح المتہجد میں ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ایک کپڑے میں بندھی ہوئی تھوڑی سی خاک شفاءہوا کرتی تھی ۔[۳۲]
حضرت کے ہمراہ خاک شفاء کاہمیشہ رہناتین حال سے خالی نہ تھایااسے تبرکارکھتے تھے یااس پرنمازمیں سجدہ کرتے تھے یااسے بحیثیت محافظ رکھتے تھے اورلوگوں کویہ بتانا مقصودرہتاتھا کہ جس کے پاس خاک شفاء ہووہ جملہ مصائب وآلام سے محفوظ رہتاہے اوراس کامال چوری نہیں ہوتا جیساکہ احادیث سے واضح ہے ۔
امام زین العابدین اورمحمدحنفیہ کے درمیان حجراسودکافیصلہ
آل محمدکے مدینہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین کے چچامحمدحنفیہ نے بروایت اہل اسلام امام سے خواہش کی کہ مجھے تبرکات امامت دیدو، کیونکہ میں بزرگ خاندان اورامامت کااہل وحقدارہوں آپ نے فرمایاکہ حجراسودکے پاس چلووہ فیصلہ کردے گا جب یہ حضرات اس کے پاس پہنچے تووہ بحکم خدایوں بولا ”امامت زین العابدین کاحق ہے“ اس فیصلہ کودونوں نے تسلیم کرلیا ۔[۳۳]
کامل مبردمیں ہے کہ اس واقعہ کے بعدسے محمدحنفیہ ،امام زین العابدین کی بڑی عزت کرتے تھے ایک دن ابوخالدکابلی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی توکہاکہ حجراسودنے خلافت کاان کے حق میں فیصلہ دے دیاہے اوریہ امام زمانہ ہیں یہ سنکر وہ مذہب امامیہ کاقائل ہوگیا ۔[۳۴]
ثبوت امامت میں امام زین العابدین کاکنکری پرمہرفرمانا
اصول کافی میں ہے کہ ایک عورت جس کی عمر 113 سال کی ہوچکی تھی ایک دن امام زین العابدین کے پاس آئی اس کے پاس وہ کنکری تھی جس پرحضرت علی امام حسن ،امام حسین کی مہرامامت لگی ہوئی تھی اس کے آتے ہی بلاکہے ہوئے آپ نے فرمایاکہ وہ کنکری لاجس پرمیرے آباؤاجدادکی مہریں لگی ہوئی ہیں اس پر میں بھی مہرکردوں چنانچہ اس نے کنکری دیدی آپ نے اسے مہرکرکے واپس کردی، اوراس کی جوانی بھی پلٹادی،وہ خوش وخرم واپس چلی گئی ۔[۳۵]
امام زین العابدین (ع) کی سیاسی جد و جہد
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر امام زین العابدین علیہ السلام بھی بنو امیہ کے نظام حکومت کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے ہوتے تو وہ بھی علم بغاوت بلند کر دیتے یا کم از کم ( مثال کے طور پر ) عبد اللہ بن حنظلہ یا مختار ثقفی سے ملحق ہو جاتے یا یہ کہ آپ (ع) ان لوگوں کی رہبری قبول کر لیتے اور کھل کر مسلحانہ مقابلہ کرتے ۔ لیکن اگر اس دور کے حالات ہمارے پیش نظر ہوں جس میں امام سجاد علیہ السلام زندگی بسر کر رہے تھے تو ہمارے لئے سمجھنا مشکل نہ ہوگا۔
ان حالات میں اگر امام زین العابدین علیہ السلام یا ائمہ علیہم السلام میں سے کوئی بھی ہوتا اور کھل کے کسی مخالف تحریک میں شامل ہو جاتا یا تلوار لے کے سامنے آگیا ہوتا تو یقینی طور پر شیعیت کی جڑیں ہمیشہ کے لئے کٹ جاتیں ۔اور پھر آئندہ کسی زمانہ میں مکتب اہلبیت علیہم السلام کے نشو نما اور ولایت و امامت کے قیام کی کوئی امید باقی نہ رہ جاتی سب کچھ ختم اور نیست و نابود ہوکر رہ جاتا ۔ 
اسلامی حکومت کی تشکیل ہمارے تمام ائمہ معصومین علیہم السلام منجملہ امام زین العابدین علیہ السلام کا بنیادی مقصد و ہدف تھا چنانچہ اس سلسلہ میں امام (ع) وہ تین اہم ترین امور انجام دئے جو اسلامی حکومت کی تشکیل کیلئے ضروری تھے انکے علاوہ ممکن ہی نہیں تھا ۔
پہلا کام 
لوگوں میں صحیح اسلامی طرز فکر پیدا کرنا تھا جو گزشتہ حاکمان جور کے ہاتھوں ایک مدت سے خود فراموشی یا تحریف کی نذر ہو چکا تھا چنانچہ اس کو اپنی اصلی و ابتدائی شکل و صورت میں واپس لانے کے لئے پورے اسلامی معاشرہ میں ہر خاص وعام کو جس حد تک بھی ممکن ہو سکے اور جہاں جہاں تک بھی امام (ع) کی تبلیغ و تعلیم کی آواز پہنچ سکے اسلامی اصول و حقائق سے آشنا کرنا بے حد ضروری تھا ۔
دوسرا کام 
مسئلہ امامت کی حقیقت سے لوگوں کو واقف بنانا تھا یعنی عوام کے درمیان اسلامی حکومت یا اسلامی حاکمیت اور اسلامی حاکمیت کو قائم کرنے کے لئے مستحق و موزوں افراد کی نشان دہی کرنی تھی ۔ ان کو یہ بتانا تھا کہ اس وقت جو لوگ خلافت و حکومت پر براجمان ہیں حاکمان کفر و استبداد اور مربیان فسق و نفاق ہیں ۔ اور آج اسلامی معاشرہ میں عبدالملک بن مروان جیسوں کی حکومت ، وہ حاکمیت نہیں ہے جو اسلام اپنے معاشرہ کے لئے چاہتا ہے کیوں کہ جب تک عوام ان مسائل سے آگاہ و ہوشیار نہ ہوں گے اور اپنے آپ میں نہ آئیں گے رفتار زمانہ کے ہاتھوں ان پر جو بے حسی طاری ہوگئی ہے اس کے گرد و غبار جب تک ذہنوں سے صاف نہ ہو جائیں گے امام علیہ السلام کی نگاہ میں حاکمیت کا جو تصور ہے ان کے لئے کبھی قابل قبول نہ ہوگا ۔
تیسرا کام 
ایک ایسی رضاکار جماعت تشکیل دینا جس سے وابستہ افراد دست امامت کے تربیت یافتہ مرکزی ارکان ہوں ۔
ان تینوں بنیادی کاموں کے انجام پاجانے کا مطلب یہ ہے کہ اب اسلامی حکومت یا علوی نظام کے لئے زمین ہموار ہو چکی ہے ۔ البتہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں اور یہاں پھر یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے برخلاف امام زین العابدین علیہ السلام کے پیش نظر یہ بات ہرگز نہیں تھی کہ خود ان کے زمانہ میں ہی یہ حاکمیت تبدیل ہو کر حکومت اسلامی قائم ہو جائے کیوں کہ معلوم تھا کہ امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانہ میں اس کے لئے زمین ہموار نہیں ہو سکے گی ۔ ظلم و زیادتی حبس اور گھٹن کا ماحول کچھ اتنا زیادہ تھا کہ محض 30سال کی مدت میں اس کا برطرف ہو جانا ممکن نہ تھا چنانچہ امام سجاد علیہ السلام مستقبل کے لئے زمین ہموار کر رہے تھے ۔حتٰی کہ ایسے بھی متعدد قرآئن ملتے ہیں جس کے مطابق امام محمد باقر علیہ السلام کا بھی اپنی زندگی کے دوران ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ خود اپنے دور میں ہی اسلامی حکومت تشکیل دے دیں یعنی 61ھ سے 95ھ تک جب کہ امام سجاد علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی اور پھر 95ھء سے 114ھ تک جو امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امامت ہے ان سے کوئی بھی خود اپنے زمانے میں ہی حکومت اسلامی تشکیل دے دینے کی فکر میں نہیں تھا لہٰذا ان کی نظر یں ایک مدت دراز کے بعد ظاہر ہونے والے نتائج پر تھیں چنانچہ جیسا کہ میں نے اشارتاً عرض کیا امام سجاد علیہ السلام کا طریقہ کار طویل المدت کے لئے تھا۔

حواله جات

[۰]صواعق محرقہ ص 120 ،وارجح المطالب ص 444 ۔
[۱]ارشاد مفید فارسی ص 401
[۲]نورالابصار ص 126 ، اخبارالاول ص
[۳]وسیلة النجات ص 219)
[۴]مطالب السؤل ص 226،264) ۔
[۵]بحارالانوار جلد 11 ص 21 طبع ایران)
[۶] سورہٴ آل عمران (۳)، آیت134.
[۷] ارشاد، مفید، ج2، ص145؛ بحار الانوار، ج46، ص545، باب5، حدیث1.
[۸] اصول کافی، ج2، ص123، باب التواضع، حدیث8؛ وسائل الشیعة، ج۱۵، ص277، باب31، حدیث 20507؛ بحارالانوار، ج46، ص55، باب5، حدیث2.
[۹] ارشاد، مفید، ج2، ص147؛ بحارالانوار، ج46، ص56، باب5، حدیث5.
[۱۰] اعلام الوریٰ، ص261، چوتھی فصل؛ کشف الغمة، ج2، ص87؛ مشکاة الانوار، ص178، فصل 22؛ بحار الانوار، ج46، باب5، حدیث6.
[۱۱] علل الشرائع، ج1، ص231، باب165، حدیث8؛ بحار الانوار، ج46، ص66، باب5، حدیث28.
[۱۲] < وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ…> سورہٴ آل عمران، آیت134.
[۱۳] …وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ…سورہٴ آل عمران، آیت134.
[۱۴] <…وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِین -سورہٴ آل عمران، آیت134.
[۱۵] امالی، صدوق، ص201، مجلس ۳۶، حدیث12؛ روضة الواعظین، ج2، ص379؛ بحار الانوار، ج46، ص67، باب5، حدیث36.
[۱۶] امالی، صدوق، ص220، مجلس39، حدیث6؛ امالی، مفید، ص219، مجلس 25،حدیث7؛ بحار الانوار، ج46، ص68، باب5، حدیث39.
[۱۷] عیون اخبار الرضا، ج2، ص145، باب40، حدیث13؛ وسائل الشیعة، ج11، ص430، باب46، حدیث 15177؛ بحار الانوار، ج46، ص69، باب5، حدیث41.
[۱۸] ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ص50؛ المحاسن، ج2، ص635، باب15، حدیث 133؛ وسائل الشیعة، ج11، ص541، باب51، حدیث 15486؛ بحار الانوار، ج46، ص70، باب5، حدیث46.
[۱۹] اصول کافی، ج4، ص68، باب من فطر صائماً، حدیث3؛ مناقب، ج4، ص155؛ بحار الانوار، ج46، ص71، باب5، حدیث53.
[۲۰] مناقب ، ج۴، ص۱۶۳؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۸۹، باب۵، حدیث۷۷.
[۲۱] مناقب ، ج۴، ص۱۵۴؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۰، باب۵، حدیث۷۷.
[۲۲] مناقب ، ج۴، ص۱۵۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۱، باب۵، حدیث۷۸.
[۲۳] بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۲، باب۵، حدیث۷۹.
[۲۴] الزھد، ص۴۵، باب۷، حدیث۱۱۹؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۲، باب۵، حدیث۸۰.
[۲۵] مناقب ، ج۴، ص۱۶۲؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۳، باب۵، حدیث۸۲.
[۲۶] اصول کافی، ج۵، ص۹۷، باب قضاء الدین، حدیث۷؛ مناقب، ج۴، ص۱۶۴؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۴، باب۵، حدیث۸۴.
[۲۷] مناقب، ج۴، ص۱۵۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۵، باب۵، حدیث۸۴.
[۲۸] الخصال، ج۲، ص۵۱۷، حدیث۴؛ مناقب، ج۴، ص۱۵۸؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۶، باب۵، حدیث۸۴.
[۲۹] کشف الغمة، ج۲، ص۸۰؛ مسکن الفوٴاد، ص۵۷؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۹۹، باب۵، حدیث۸۷.
[۳۰] کشف الغمة، ج۲، ص۱۰۶؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۱۰۰، باب۵، حدیث۸۸.
[۳۱]تاریخ آئمہ 392 ،وصواعق محرقہ ص 12 ،نورالابصار ص 128
[۳۲]مناقب جلد ۲ ص ۳۲۹ طبع ملتان
[۳۳]شواہدالنبوت ص ۱۷
[۳۴]مناقب جلد ۲ ص ۳۲۶
[۳۵]دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۶

تبصرے  (۰)

ابھی تک کوئی تبصرہ درج نہیں کیا گیا ہے۔

تبصرہ کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی