صحیفہ سجادیہ کی پینتالیسویں دعا وداع رمضان المبارک
وداع رمضان المبارک کیسے کریں؟ حضرت امام سجاد علیہ السلام کی زبانی
ماہ رمضان المبارک کو وداع کرنے کے لئے صحیفہ سجادیہ کی پینتالیسویں دعا پڑھانا مستحب ہے
ماہ رمضان کی وداع کے لئے حضرت کی دعا
(1) اے اللہ ! اے وہ جو (اپنے احسانات کا) بدلہ نہیں چاہتا؛
(2) اے وہ جو عطا و بخشش پر پشیمان نہیں ہوتا؛
(3) اے وہ جو اپنے بندوں کو (ان کے عمل کے مقابلہ میں) نپا تلا اجر نہیں دیتا؛ [بلکہ جزا بندے کے عمل سے زیادہ ہے۔]
(4) تیری نعمتیں بغیر کسی سابقہ استحقاق کے ہیں اور تیرا عفو و درگزر تفضل و احسان ہے تیرا سزا دینا عین عدل اور تیرا فیصلہ خیر و بہبودی کا حامل ہے۔
(5) تو اگر دیتا ہے تو اپنی عطا کو منت گزاری سے آلودہ نہیں کرتا اور اگر منع کر دیتا ہے تو یہ ظلم وزیادتی کی بنا پر نہیں ہوتا۔
(6) جو تیرا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے شکر کی جزا دیتا ہے۔ حالانکہ تو ہی نے اس کے دل میں شکرگزاری کا القاء کیا ہے۔
(7) اور جو تیری حمد کرتا ہے اسے بدلہ دیتا ہے حالانکہ تو ہی نے اسے حمد کی تعلیم دی ہے
(8) اور ایسے شخص کی پردہ پوشی کرتا ہے کہ اگر چاہتا تو اسے رسوا کر دیتا ہے۔ اور ایسے شخص کو دیتا ہے کہ اگر چاہتا تو اسے نہ دیتا۔ حالانکہ وہ دونوں تیری بارگاہ عدالت میں رسوا و محروم کیے جانے ہی کے قابل تھے مگر تو نے اپنے افعال کی بنیاد تفضل و احسان پر رکھی ہے اور اپنے اقتدار کو عفو و درگزر کی راہ پر لگایا ہے
(9) اور جس کسی نے تیری نافرمانی کی تو نے اس سے بردباری کا رویہ اختیار کیا۔ اور جس کسی نے اپنے نفس پر ظلم کا ارادہ کیا تو نے اسے مہلت دی تو ان کے رجوع ہونے تک اپنے حلم کی بنا پر مہلت دیتا ہے اور توبہ کرنے تک انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا تا کہ تیری منشاء کے خلاف تباہ ہونے والا تباہ نہ ہو اور تیری نعمت کی وجہ سے بدبخت ہونے والا بد بخت نہ ہو مگر اس وقت کہ جب اس پر پوری عذر داری اور اتمام حجت ہو جائے اے کریم! یہ (اتمام حجت) تیرے عفو و درگزر کا کرم اور اے بردبار تیری شفقت و مہربانی کا فیض ہے!
(10) تو ہی ہے وہ جس نے اپنے بندوں کے لیے عفو و بخشش کا دروازہ کھولا ہے اور اس کا نام توبہ رکھا ہے اور تو نے اس دروازہ کی نشان دہی کے لیے اپنی وحی کو رہبر قرار دیا ہے تاکہ وہ اس دروازہ سے بھٹک نہ جائیں چنانچہ اے مبارک نام والے تو نے فرمایا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو محو کر دے اور تمہیں اس بہشت میں داخل کرے جس کے (محلات و باغات) کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
(11) اس دن جب خدا اپنے رسول اور ان لوگوں کو جو اس پر ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا بلکہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب چلتا ہوگا اور وہ لوگ یہ کہتے ہوں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل فرما اور ہمیں بخش دے۔ اس لیے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے تو اب جو اس گھر میں داخل ہونے سے غفلت کرے جب کہ دروازہ کھولا اور رہبر مقرر کیا جا چکا ہے تو اس کا عذر و بہانہ کیا ہو سکتا ہے؟
(12) تو وہ ہے جس نے اپنے بندوں کے لیے لین دین میں اونچے نرخوں کا ذمہ لے لیا ہے اور یہ چاہا ہے کہ وہ جو سودا تجھ سے کریں اس میں انہیں نفع ہو اور تیری طرف بڑھنے اور زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں چنانچہ تو نے کہ جو مبارک نام والا اور بلند مقام والا ہے فرمایا ہے جو میرے پاس نیکی لے کر آئے گا اسے اس کا دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کا مرتکب ہوگا تو اس کو برائی کا بدلہ بس اتنا ہی ملے گا جتنی برائی ہے ۔۔۔
(13) اور تیرا ارشاد ہے کہ ۔۔ جو لوگ اللہ تعالی کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس بیج کی سی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لیے چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے ۔۔۔ اور تیرا ارشاد ہے کہ ۔۔۔۔ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ خدا اس کے مال کو کئی گناہ زیادہ کرکے ادا کرے اور ایسی ہی افزائش حسنات کے وعدہ پر مشتمل دوسری آیتیں کہ جو تو نے قرآن مجید میں نازل کی ہیں۔
(14) اور تو ہی وہ ہے جس نے وحی و غیب کے کلام اور ایسی ترغیب کے ذریعہ کہ جو ان کے فائدہ پر مشتمل ہے ایسے امور کی طرف ان کی رہنمائی کی کہ اگر ان سے پوشیدہ رکھتا تو نہ ان کی آنکھیں دیکھ سکتیں، نہ ان کے کان سن سکتے اور نہ ان کے تصورات وہاں تک پہنچ سکتے چنانچہ تیرا ارشاد ہے کہ تم مجھے یاد رکھو میں تمہاری طرف سے غافل نہیں ہوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرتے رہو اور ناشکری نہ کرو ۔۔۔ اور تیرا ارشاد ہے کہ اگر میرا شکر کرو گے تو میں یقینا تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر نا شکری کی تو یاد رکھو کہ میرا عذاب سخت عذاب ہے ۔۔۔
(15) اور تیرا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا مانگو تو میں قبول کروں گا۔ وہ لوگ جو غرور کی بنا پر میری عبادت سے منہ موڑ لیتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ تو نے دعا کا نام عبادت رکھا اور اس کے ترک کو غرور سے تعبیر کیا اور اس کے ترک پر جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہونے سے ڈرایا!
(16) اس لئے انہوں نے تیری نعمتوں کی وجہ سے تجھے یاد کیا۔ تیرے فضل و کرم کی بنا پر تیرا شکریہ ادا کیا اور تیرے حکم سے تجھے پکارا اور (نعمتوں میں) طلب افزائش کے لیے تیری راہ میں صدقہ دیا اور تیری یہ رہنمائی ہی ان کے لیے تیرے غضب سے بچاؤ اور تیری خوشنودی تک رسائی کی صورت تھی
(17) اور جن باتوں کی تو نے اپنی جانب سے اپنے بندوں کی رہنمائی کی ہے اگر کوئی مخلوق اپنی طرف سے دوسرے مخلوق کی ایسی ہی چیزوں کی طرف راہنمائی کرتا تو وہ قابل تحسین ہوتا تو پھر تیرے ہی لئے حمد ستائش ہے جب تک تیری حمد کے لیے راہ پیدا ہوتی رہے اور جب تک حمد کے وہ الفاظ جن سے تیری تحمید کی جا سکے اور حمد کے وہ معنی جو تیری حمد کی طرف پلٹ سکیں باقی رہیں۔ اے وہ معنی جو تیری حمد کی طرف پلٹ سکیں باقی رہیں۔
(18) اے وہ جو اپنے فضل و احسان سے بندوں کی حمد کا سزاوار ہوا ہے اور انہیں اپنی نعمت و بخشش دے ڈھانپ لیا ہے۔ ہم پر تیری نعمتیں کتنی آشکار ہیں اور تیرا انعام کتنا فراواں ہے اور کس قدر ہم تیرے انعام و احسان سے مخصوص ہیں!
(19) تو نے اس دین کی جسے منتخب فرمایا اور اس طریقہ کی جسے پسند فرمایا اور اس راستہ کی جسے آسان کر دیا ہمیں ہدایت کی اور اپنے ہاں قرب حاصل کرنے اور عزت و بزرگی تک پہنچنے کے لئے بصیرت دی۔
(20) بار الہا! تو ان منتخب فرائض اور مخصوص واجبات میں سے ماہ رمضان کو قرار دیا ہے جسے تو نے تمام مہینوں میں امتیاز بخشا اور تمام وقتوں اور زمانوں میں سے اسے منتخب فرمایا ہے اور اس میں قرآن اور نور کو نازل فرما کر اور ایمان کو فروغ و ترقی بخش کر اسے سال کے تمام اوقات پر فضیلت دی اور اس میں روزے واجب کئے اور نمازوں کی ترغیب دی اور اس میں شب قدر کو بزرگی بخشی جو خود ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
(21)پھر اس مہینہ کی وجہ سے تو نے ہمیں تمام امتوں پر ترجیح دی اور دوسر ی امتوں کے بجائے ہمیں اس کی فضلیت کے باعث منتخب کیا۔ چنانچہ ہم نے تیرے حکم سے اس کے دنوں میں روزے رکھے اور تیری مدد سے اس کی راتیں عبادت میں بسر کیں۔ اس حالت میں کہ ہم اس روزہ نماز کے ذریعہ تیری اس رحمت کے خواستگار تھے جس کا دامن تو نے ہمارے لئے پھیلایا ہے اور اسے تیرے اجر و ثواب کا وسیلہ قرار دیا۔ اور تو ہر اس چیز کے عطا کرنے پر قادر ہے جس کی تجھ سے خواہش کی جائے اور ہر اس چیز کا بخشنے والا ہے جس کا تیرے فضل سے سوال کیا جائے تو ہر اس شخص سے قریب ہے جو تجھ سے قرب حاصل کرنا چاہے۔
(22)اس مہینہ نے ہمارے درمیان قابل ستائش دن گزارے اور اچھی طرح حق رفاقت ادا کیا اور دنیا جہان کے بہترین فائدوں سے ہمیں مالا مال کیا۔ پھر جب اس کا زمانہ ختم ہو گیا، مدت بیت گئی اور گنتی تمام ہو گئی تو وہ ہم سے جدا ہوگیا۔
(23)اب ہم اسے رخصت کرتے ہیں اس شخص کے رخصت کرنے کی طرح جس کی جدائی ہم پر شاق ہو اور جس کا جانا ہمارے لئے غم افزا اور وحشت انگیز ہو اور جس کے عہد و پیمان کی نگہداشت عزت و حرمت کا پاس اور اس کے واجب الادا حق سے سبکدوشی از بس ضروری ہو اس لیے ہم کہتے ہیں اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے تجھ پر سلام، اے دوستان خدا کی عید
(24)تجھ پر سلام اے اوقات میں بہترین رفیق اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے!
(25)تجھ پر سلام ہو، اے وہ مہینے جس میں امیدیں بر آتی ہیں اور اعمال کی فراوانی ہوتی ہے
(26)تجھ پر سلام۔ اے وہ ہم نشین کہ جو موجود ہو تو اس کی بڑی قدر و منزلت ہوتی ہے اور نہ ہونے پر بڑا دکھ ہوتا ہے اور اے وہ سر چشمہ امید و رجا جس کی جدائی الم انگیز ہے
(27)تجھ پر سلام۔ اے وہ ہمدم جو انس و دل بستگی کا سامان لیے ہوئے آیا تو شادمانی کا سبب ہوا اور واپس گیا تو وحشت بڑھا کر غمگین بنا گیا
(28)تجھ پر سلام۔ اے وہ ہمسائے جس کی ہمسائیگی میں دل نرم اور گناہ کم ہو گئے
(29)تجھ پر سلام، اے وہ مدد گار جس نے شیطان کے مقابلہ میں مدد و اعانت کی، اے وہ ساتھی جس نے حسن عمل کی راہیں ہموار کیں
(30)تجھ پر سلام، (اے ماہ رمضان ) تجھ میں اللہ کے آزاد کیے ہوئے بندے کس قدر زیادہ ہیں اور جنہوں نے تیری حرمت و عزت کا پاس و لحاظ رکھا وہ کتنے خوش نسیب ہیں
(31) تجھ پر سلام، تو کس قدر گناہوں کو محو کرنے والا اور قسم قسم کے عیبوں کو چھپانے والا ہے۔
(32) تجھ پر سلام۔ تو گنہگاروں کے لیے کتنا طویل اور مومنوں کے دلوں میں کتنا پر ہبیت ہے۔
(33) تجھ پر سلام، اے وہ مہینے جس سے دوسرے ایام ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتے۔
(34) تجھ پر سلام، اے وہ مہینے جو ہر امر سے سلامتی کا باعث ہے۔
(35)تجھ پر سلام، اے وہ جس کی ہم نشینی بار خاطر اور معاشرت ناگوار نہیں۔
(36) تجھ پر سلام جب کہ تو برکتوں کے ساتھ ہمارے پاس آیا اور گناہوں کی آلودگیوں کو دھویا
(37) تجھ پر سلام، اے وہ جسے دل تنگی کی وجہ سے رخصت نہیں کیا گیا۔ اور نہ خستگی کی وجہ سے اس کے روزے چھوڑے گئے۔
(38) تجھ پر سلام۔ اے وہ کہ جس کے آنے کی پہلے سے خواہش تھی اور جس کے ختم ہونے سے قبل ہی دل رنجیدہ ہیں۔
(39) تجھ پر سلام، تیری وجہ سے کتنی برائیاں ہم سے دور ہو گئیں اور کتنی بھلائیوں کے سر چشمے ہمارے لیے جاری ہو گئے۔
(40) تجھ پر سلام۔ اے ماہ رمضان تجھ پر اور اس شب قدر پر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے
(41) سلام ہو۔ ابھی کل ہم کتنے تجھ پر وارفتہ تھے اور آنے والے کل میں ہمارے شوق کی کتنی فراوانی ہو گئی۔
(42) تجھ پر سلام۔ اے ماہ مبارک تجھ پر اور تیری ان فضیلتوں پر جن سے ہم محروم ہو گئے اور تیری گزشتہ برکتوں پر جو ہمارے ہاتھ سے جاتی رہیں سلام ہو۔
(43) اے اللہ ہم اس مہینے سے مخصوص ہیں جس کی وجہ سے تو نے ہمیں شرف بخشا اور اپنے لطف واحسان سے اس کی حق شناسی کی توفیق دی جبکہ بد نصیب لوگ اس کے وقت (کی قدر وقیمت) سے بے خبر تھے اوراپنی بد بختی کی وجہ سے اس کے فضل سے محروم رہ گئے۔
(44) اور تو ہی ولی و صاحب اختیار ہے کہ ہمیں اس کی حق شناسی کے لیے منتخب کیا اوراس کے احکام کی ہدایت فرمائی۔ بے شک تیری توفیق سے ہم نے احکام کی ہدایت فرمائی۔ بے شک تیری توفیق سے ہم نے اس مہینے میں روزے رکھے، عبادت کے لیے قیام کیا۔ مگر کمی و کوتاہی کے ساتھ اور مشتے از خروار سے زیادہ نہ بجا لا سکے۔۔
(45) اے اللہ ! ہم اپنی بد اعمالی کا اقرار اور سہل انگاری کا اعتراف کرتے ہوئے تیری حمد کرتے ہیں اور اب تیرے لیے کچھ ہے تو وہ ہمارے دلوں کی واقعی شرمساری اور ہماری زبانوں کی سچی معذرت ہے لہذا اس کمی و کوتاہی کے باوجود جو ہم سے ہوئی ہے ہمیں ایسا اجر عطا کر کہ ہم اس کے ذریعہ دلخواہ فضیلت و سعادت کو پا سکیں اور طرح طرح کے اجر و ثواب کے ذخیرے جن کے ہم آرزو مند تھے اس کے عوض حاصل کر سکیں
(46) اور ہم نے تیرے حق میں جو کمی کوتاہی کی ہے اس میں ہمارے عذر کو قبول فرما اور ہماری عمر آئندہ کا رشتہ آنے والے ماہ رمضان سے جوڑ دے اور جب اس تک پہنچا دے تو جو عبادت تیرے شایان شان ہو اس کے بجا لانے پر ہماری اعانت فرمانا اوراس اطاعت پر جس کا وہ مہینہ سزاوار ہے عمل پیرا ہونے کی توفیق دینا اور ہمارے لئے ایسے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رکھنا کہ جو زمانہ زیست کے مہینوں میں ایک کے بعد دوسرے ماہ ماہ رمضان میں تیری حق ادائیگی کا باعث ہوں۔
(47) ا ے اللہ ! ہم نے اس مہینہ میں جو صغیرہ یا کبیرہ معصیت کی ہو، یا کسی گناہ سے آلودہ اور کسی خطا کے مرتکب ہوئے ہوں جان بوجھ کر یا بھولے چوکے، خود اپنے نفس پر ظلم کیا ہو یا دوسرے کا دامن حرمت چاک کیا ہو۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اپنے پردہ میں ڈھانپ لے اور اپنے عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے معاف کر دے، اور ایسا نہ ہو کہ اس گناہ کی وجہ سے طنز کرنے والوں کی آنکھیں ہمیں گھوریں اور طعنہ زنی کرنے والوں کی زبانیں ہم پر کھلیں اور اپنی شفقت بے پایاں سے اور مرحمت روز افزوں سے ہمیں ان اعمال پر کار بند کر کہ جو ان چیزوں کو بر طرف کریں اور ان کی تلافی کریں جنہیں تو اس ماہ میں ہمارے لئے نا پسند کرتا ہے۔
(48) اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اس مہینہ کے رخصت ہونے سے جو قلق ہمیں ہوا ہے اس کا چارہ کر اور عید اور روزہ چھوڑنے کے دن کو ہمارے لیے مبارک قرار دے اور اسے ہمارے گزرے ہوئے دنوں میں بہترین دن قرار دے جو عفو و درگزر کو سمیٹنے والا اور گناہوں کو محو کرنے والا ہو اور تو ہمارے ظاہر و پوشیدہ گناہوں کو بخش دے۔
(49) بار الہا اس مہینہ سے الگ ہونے کے ساتھ تو ہمیں گناہوں سے الگ کر دے اور اس کے نکلنے کے ساتھ تو ہمیں برائیوں سے نکال لے اور اس مہینہ کی بدولت اس کو آباد کرنے والوں میں ہمیں سب سے بڑھ کر خوش بخت با نصیب اور بہرہ مند قرار دے۔
(50) اے اللہ ! جس کسی نے جیسا چاہیے اس مہینے کا پاس و لحاظ کیا ہو اور کماحقہ اس کا احترام ملحوظ رکھا ہو اوراس کے احکام پر پوری طرح عمل پیرا رہا ہو۔ گناہوں سے جس طرح بچنا چاہیے اس طرح بچا ہو بہ نیت تقرب ایسا عمل خیر بجا لایا ہو جس نے تیری خوشنودی اس کے لیے ضروری قرار دی ہو اور تیری رحمت کو اس کی طرف متوجہ کردیا ہو۔ تو جو اسے بخشے ویسا ہی ہمیں بھی اپنی دولت بے پایاں میں سے بخش اور اپنے فضل و کرم سے اس سے بھی کئی گنا زائد عطا کر۔ اس لیے کہ تیرے خزانے کم ہونے میں نہیں آتے بلکہ بڑھتے ہی جاتے ہیں اور نہ تیرے احسانات کی کانیں فنا ہوتی ہیں اور تیری بخشش و عطا تو ہر لحاظ سے خوشگوار بخشش و عطا ہے۔
(51) اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور جو لوگ روز قیامت تک اس ماہ کے روزے رکھیں یا تیری عبادت کریں ان کے اجر و ثواب کے مانند ہمارے لیے اجر و ثواب ثبت فرما۔
(52) اے اللہ ! ہم اس روز فطر میں جسے تو نے اہل ایمان کے لیے عید و مسرت کا روز اور اہل اسلام کے لیے اجتماع وتعاون کا دن قرار دیا ہے ہر اس گناہ سے جس کے ہم مرتکب ہوئے ہوں اور اس برائی سے جسے پہلے کر چکے ہوں اور ہر بری نیت سے جسے دل میں لیے ہوئے ہوں اس شخص کی طرح توبہ کرتے ہیں جو گناہوں کی طرف دوبارہ پلٹنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور نہ توبہ کے بعد خطا کا مرتکب ہوتا ہو ایسی سچی توبہ تو ہر شک و شبہ سے پاک ہو تو اب ہماری توبہ کو قبول فرما ہم سے راضی و خوشنود ہو جا اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔
(53) اے اللہ ! گناہوں کی سزا کا خوف اور جس ثواب کا تو نے وعدہ کیا ہے اس کا شوق ہمیں نصیب فرما تا کہ جس ثواب کے تجھ سے خواہش مند ہیں اس کی لذت اور جس عذاب سے پناہ مانگ رہے ہیں اس کی تکلیف و اذیت پوری طرح جان سکیں۔
(54) اور ہمیں اپنے نزدیک ان توبہ گزاروں میں قرار دے جن کے لیے تو نے اپنی محبت کو لازم کر دیا ہے اور جن سے فرمانبرداری و اطاعت کی طرف رجوع ہونے کو تو نے قبول فرمایا ہے۔ اے عدل کرنے والوں میں سب سے زیادہ عدل کرنے والے!
(55) اے اللہ ! ہمارے ماں باپ اور ہمارے تمام اہل مذہب وملت خواہ وہ گزر چکے ہوں یا قیامت کے دن تک آیندہ آنے والے ہوں سب سے درگزر فرما۔
(56) اے اللہ ! ہمارے نبی محمد اور ان کی آل پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی رحمت تو نے اپنے مقرب فرشتوں پر کی ہے اور ان پر اور ان کی آل پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی تو نے اپنے فرستادہ نبیوں پر نازل فرمائی ہے اور ان پر او ر ان کی آل پر ایسی رحمت نازل فرما جیسی تو نے اپنے نیکو کار بندوں پر نازل کی ہے (بلکہ) اس سے بہتر و برتر، اے تمام جہان کے پروردگار ایسی رحمت جس کی برکت ہم تک پہنچے جس کی منفعت ہمیں حاصل ہو اور جس کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول ہوں اس لیے کہ تو ان لوگوں سے جن کی طرف رجوع ہوا جاتا ہے زیادہ کریم اور ان لوگوں سے جن پر بھروسا کیا جاتا ہے زیادہ بے نیاز کرنے والا ہے اور ان لوگوں سے جن کے فضل کی بنا پر سوال کیا جاتا ہے زیادہ عطا کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر و توانا ہے۔