"نوروز" کی شرعی حیثیت
"نوروز" کی شرعی حیثیت
تمہید:
نوروز ایرانی کیلنڈر کا پہلا دن ہے اور یہ وہ دن ہے جس دن قدیم ایرانی تصوّرات کے مطابق زمین کی گردش کچھ لمحے کے لئے رک کر دوبارہ شروع ہوتی ہے۔ اسلام سے پہلے بھی ایرانی اقوام یہ دن ایک تہوار کے طور پر مناتی آئی ہیں۔ ایران کے قدیم زرتشتی مذہب میں اس کی بہت اہمیت وارد ہوئی ہے اور زرتشتی روزِ اوّل سے ہی اس دن کو بھر پور انداز میں مناتی آئے ہیں۔
نوروز دو الفاظ کا مرکّب ہے، "نو" اور "روز"۔۔۔۔۔۔ فارسی میں "نو" نئے کو کہتے ہیں، یعنی نوروز کا مطلب ہوا نیا دن۔ قدیم ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ اس دن زمین کی گردش کچھ لمحوں کے لئے رک جاتی ہے اور پھر دوبارہ شروع ہو جاتی ہے، گویا ان کے لئے یہ ایک نیا دن تھا۔
یہ عید موجودہ ایران سمیت افغانستان، ترکی، عراق و شام کے کردی علاقوں، تاجیکستان، آذربائجان، اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں میں باقاعدہ تہوار کے طور پر منائی جاتی ہے کیونکہ یہ علاقے قدیم ایران کا حصّہ رہے ہیں۔ اس دن کو منانے کا ایک اور مقصد بہار کا آغاز بھی ہے، اور یہ "جشن ِ بہاراں" کے طور پر منائی جاتی ہے۔ چونکہ یہ علاقے بیشتر ایسے حصّوں پر مشتمل ہیں جن میں سردیوں میں شدید سردی ہوتی ہے، اور مارچ خصوصا نوروز کے بعد سردی کی شدت میں کمی اور بہار کا آغاز ہوتا ہے۔
یہ دن بطور ایک تہوار منانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اسلام کے زرّین اصولوں میں سے ہے کہ اگر کوئی علاقائی تہوار شرعی حدود و قیود میں منائی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ایک اسلامی عید کے طور پر یہ دن ہمارے بعض لوگ بہت شان و شوکت سے مناتے ہیں، اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اس دن اعلان ِ غدیر ہوا تھا اور اسی دن مولا علی(ع) کی "تاجپوشی" ہوئی تھی، اس کے علاوہ بھی اس کے فضائل گنوائے جاتے ہیں جیسے مولا علی(ع) کی سواری کا اس دن آنا اور اس جیسی دوسری خرافات بھی رائج ہیں۔
ہماری اس تحریر کا مقصد نوروز کی مخالفت نہیں ہے بلکہ ہم نوروز کو اسلامی عید سمجھنے کے خلاف ہیں۔ اس کا تذکر ابتدا
میں ہی کرنا ضروری ہے تاکہ بعض الناس اس تحریر کو غلط رخ نہ دیں۔
نوروز کی شرعی حیثیت احادیث کی روشنی میں:
مندرجہ بالا بحث سے ایک بات تو واضح ہے کہ نوروز قبل از اسلام بھی تھا اور یہ "یوم ِ فطرت" کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اور یہ چیز بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ شارع نے ایسا کوئی دن قرار نہیں دیا۔
لفظ نوروز خود اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ شریعت میں ایسی کوئی عید نہیں ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ہم نے اس کی وجہِ تسمیہ اوپر بتائی ہے، یہ ایرانیوں کے عقیدے کے مطابق سال کا پہلا دن تھا جب زمین کی گردش دوبارہ شروع ہوتی ہے۔ ایسا کوئی عقیدہ اسلام میں نہیں اور سائنس بھی اس بات کی نفی کرتی ہے کہ اس دن زمین کی حرکت کچھ لمحے کے لئے رک جاتی ہے۔
نوروز کے متعلق ہمارے پاس دو طرح کی روایتیں آئی ہیں، ایک طرف معلّی بن خنیس سے منسوب روایت ہے اور دوسری طرف کچھ روایتیں اس کی مخالفت میں ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم دیکھتے ہیں کہ صدر ِ اسلام میں ایسی کسی عید کا وجود تھا یا نہیں؟
رسول اللہ(ص) کے دور میں ہمیں نوروز کی فضیلت کے متعلق کچھ نہیں ملتا، اگر کچھ ملتا بھی ہے تو ایک حدیث ملتی ہے جو
واضح نوروز کے غیر اسلامی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ قطب راوندی نے لبّ اللباب میں نقل فرمایا:
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ص قَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَبْدَلَکُمْ بِیَوْمَیْنِ یَوْمَیْنِ- بِیَوْم النَّیْرُوزِ وَ الْمِهْرَجَانِ الْفِطْرَ وَ الْأَضْحَى
رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں: "میں نے دو دنوں کو تمہارے لئے دو دنوں کے بدلے قرار دیا، نوروز اور مہرگان کے بدلے عیدالفطر اور عیدالاضحی کو قرار دیا"۔
(مستدرک الوسائل: ج6 ص153)
اس حدیث سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نوروز اور مہرگان کے بدلے اسلام میں عیدالفطر اور عیدالاضحی ہے لہذا اس کو اسلامی عید سمجھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نوروز اور مہرگان ایرانیوں/مجوسیوں کی دو عیدیں تھیں جن کو یہ منایا کرتے تھے۔
اس کے بعد ہمیں کسی معصوم سے نوروز کے بارے میں کچھ نہیں ملتا، لیکن جب امام صادق(ع) کا دور آتا ہے تو یکایک معلّی بن خنیس ایسی روایتیں نقل کرنے لگ جاتے ہیں جن میں نوروز کی فضیلتیں دیکھ کر عیدالفطر اور عیدالاضحی کی کم مائیگی پر افسوس ہونے لگتا ہے۔ امام صادق(ع) سے پہلے مولا علی(ع) کے دور کا ایک واقعہ ہمیں ملتا ہے، یہ واقعہ شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں نقل کی ہے؛
وَ أُتِیَ عَلِیٌّ ع بِهَدِیَّةِ النَّیْرُوزِ فَقَالَ ع مَا هَذَا قَالُوا یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ الْیَوْمُ النَّیْرُوزُ فَقَالَ ع اصْنَعُوا لَنَا کُلَّ یَوْمٍ نَیْرُوزا
امام علی(ع) کے پاس نوروز کے دن ہدیہ لایا گیا تو آپ(ع) نے پوچھا "یہ کیا ہے"۔۔۔۔ کہا گیا "اے امیر المؤمنین آج نوروز ہے۔" اس پر آپ(ع) نے جواب دیا کہ ہمارے لئے ہر روز نوروز بنایا جائے (یعنی روزانہ مومنین ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کریں)۔
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث 4073)
ایک اور روایت میں مولا علی(ع) سے اس طرح وارد ہوا ہے؛
وَ رُوِیَ أَنَّهُ قَالَ ع نَیْرُوزُنَا کُلُّ یَوْم
امام علی(ع) سے نقل کیا گیا: "ہر دن ہمارے لئے نوروز ہے"۔
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث 4074)
مولا(ع) کا یہ فرمان اس فرمان سے مطابقت رکھتا ہے کہ مومن کے لئے ہر وہ دن عید ہے جس دن وہ اللہ کی معصیت نہ کرے۔ یہ فرمان خاص عیدِ نوروز کی نفی کر رہی ہے اور یہ کہہ رہی ہے کہ ہر دن مومن کے لئے نوروز ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہاں یہ نکلتا ہے کہ مولا علی(ع) کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آج کیا دن ہے۔ اگر آج کے دن کی خاص اہمیت ہوتی تو ان کو علم ہونا چاھئے تھا بلکہ اپنے اصحاب کو اس دن کی فضیلت بتاتے، البتہ وہ خود تعجّب کرتے ہوئے استفسار کر رہے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ اور یہ تعجب بذات خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس دن کی چنداں اہمیت نہیں ہے۔
اور جیسا کہ بعض جہلاء اس دن کے بارے میں کہتے ہیں کہ مولا علی(ع) کی خلافت کا اعلان اس دن ہوا، یعنی اعلان ِ غدیر اسی دن منعقد ہوا اور اسی دن فلاں فلاں فلاں واقعات ہوئے، تو عجیب بات نہیں کہ مولا علی(ع) کو خود معلوم نہیں تھا کہ اس دن ان کی خلافت کا اعلان ہوا؟ یہ بعد میں آنے والے بعض جہلاء نے کیسے ان سے یہ عجیب و غریب باتیں منسوب کر دیں؟
یہاں ایک اور نکتہ نکلتا ہے، جیسا کہ عرض کیا گیا کہ "نوروز" کا مطلب نیا دن کے ہیں۔ جیسا کہ قدیم ایرانیوں کا عقیدہ تھا کہ ان کا سال ختم ہوتا ہے تو زمین کی گردش رک جاتی ہے اور پھر نوروز والے دن گردش دوبارہ سے شروع ہوتی ہے، پس یہ ایک نیا دن یعنی "نوروز" ہے۔ تو مولا علی(ع) نے ایک طرح سے اس عقیدے کی بھی نفی کی اور فرمایا کہ یہ کوئی نیا دن نہیں ہے بلکہ مومن کے لئے ہر دن نیا ہے۔
لیکن افسوس تو یہ ہوتا ہے کہ علی(ع) کے نام لیوا بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس دن زمین کی چرخش رک جاتی ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ایک نیو ڈے ہے، اور ان کو کوئی روکنے والا بھی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو خرافات سے
روکا جائے، یہ دن کسی نے منانا ہے تو ضرور منائیں لیکن خرافات کے بغیر اور ایک تہوار کے طور پر منائیں۔
اس کے بعد جیسا کہ عرض کیا گیا کہ امام صادق(ع) تک ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہیں ملتا۔ پھر ہمیں امام صادق(ع) سے
ایک روایت ملتی ہے جس کو شیخ کلینی نے اصول کافی میں نقل کیا؛
عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا، عَنْ سَهْلِ بْنِ زِیَادٍ وَ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ جَمِیعاً، عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ، عَنْ إِبْرَاهِیمَ الْکَرْخِیِّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الرَّجُلِ تَکُونُ لَهُ الضَّیْعَةُ الْکَبِیرَةُ، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ الْمِهْرَجَانِ أَوِ النَّیْرُوزِ، أَهْدَوْا إِلَیْهِ الشَّیْءَ لَیْسَ هُوَ عَلَیْهِمْ، یَتَقَرَّبُونَ بِذلِکَ إِلَیْهِ؟
فَقَالَ: «أَ لَیْسَ هُمْ مُصَلِّینَ؟» قُلْتُ: بَلى، قَالَ: «فَلْیَقْبَلْ هَدِیَّتَهُمْ وَ لْیُکَافِهِمْ؛ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه و آله قَالَ: لَوْ أُهْدِیَ إِلَیَّ کُرَاعٌ لَقَبِلْتُ، وَ کَانَ ذلِکَ مِنَ الدِّینِ، وَ لَوْ أَنَ کَافِراً أَوْ مُنَافِقاً أَهْدى إِلَیَّ وَسْقاً مَا قَبِلْتُ، وَ کَانَ ذلِکَ مِنَ الدِّینِ؛ أَبَى اللَّهُ- عَزَّ وَ جَلَّ- لِی زَبْدَ الْمُشْرِکِینَ وَ الْمُنَافِقِینَ وَ طَعَامَهُمْ».
ابراھیم کرخی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ ایک شخص جس کے پاس بہت بڑا مزرعہ ہے، جب مہرگان اور نوروز آتا ہے تو اس کے پاس چیزیں ہدیہ کی جاتی ہیں قصد تقرّب کے بغیر، کیا اس کے لئے قبول کرنا جائز ہے؟ آپ(ع)
نے پوچھا: کیا وہ لوگ نماز پڑھتے ہیں؟ جواب دیا گیا "جی ہاں"۔
آپ(ع) نے جواب دیا: پھر ہدیہ قبول کر لیا جائے۔
(الکافی: ج5 ص141) (من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث 4078) (تہذیب الاحکام: ج6 ص378)
اس روایت سے نوروز اور مہرگان کے بطور تہوار منائے جانے کا جواز پیدا ہوتا ہے کیونکہ یہ ہدیہ پیش کرنے والے اسلام قبول کر چکے تھے۔ اس سے ان لوگوں کی رد بھی ہو جاتی ہے جو بطور تہوار بھی نوروز منانے کی اجازت نہیں دیتے اور
ہمارے خیال کی تقویت ہوتی ہے کہ بطور تہوار اس کی اجازت ہے۔
البتہ اس روایت سے عید نوروز کے اسلامی ہونے کا جواز کہیں سے بھی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ الٹا اس کی نفی ہوتی ہے کہ اصحاب کو نہیں پتہ تھا کہ یہ دن اتنا جلیل القدر ہے؟ امام(ع) کو بھی چاھئے تھا کہ اس دن کی عظمت بتائیں اور ہدیہ لینے کو جائز کہنے پر اکتفا نہیں کرنا چاھئے تھا۔
خلیفۂ دوّم کے دور میں ایران فتح ہوا اور ایرانی ثقافت کی یلغار مسلم معاشرے میں شروع ہوئی تو عباسیوں نے ایرانی ثقافت کو ایرانی کنیزوں کے ساتھ قبول کر لیا۔ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ عباسی خلفاء نے باقاعدہ نوروز منانے کا اہتمام کیا تاکہ ایرانیوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکیں، ان کے افواج میں عربوں سے زیادہ ایرانی ہوا کرتے تھے اور یہ سب ان کی سیاست کے لئے بہت ضروری تھا۔ عباسی خلفاء اس دن تحائف قبول کرتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ اس دن ان کو ہدیہ دیا جائے
اور سرکاری شان و شوکت سے یہ دن منایا جاتا تھا۔
ہمیں تاریخ میں امام موسی کاظم(ع) کے دور کا ایک واقعہ ملتا ہے جب عباسی خلیفہ منصور نے امام کاظم(ع) سے کہا کہ
آپ(ع) ان کی جگہ تشریف رکھیں اور ہدیہ قبول کریں۔ اس روایت کو ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے؛
وَ حُکِیَ أَنَّ الْمَنْصُورَ تَقَدَّمَ إِلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ ع بِالْجُلُوسِ لِلتَّهْنِیَةِ فِی یَوْمِ النَّیْرُوزِ وَ قَبْضِ مَا یُحْمَلُ إِلَیْهِ فَقَالَ ع إِنِّی قَدْ فَتَّشْتُ الْأَخْبَارَ عَنْ جَدِّی رَسُولِ اللَّهِ ص فَلَمْ أَجِدْ لِهَذَا الْعِیدِ خَبَراً وَ إِنَّهُ سُنَّةٌ لِلْفُرْسِ وَ مَحَاهَا الْإِسْلَامُ وَ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ نُحْیِیَ مَا مَحَاهُ الْإِسْلَامُ فَقَالَ الْمَنْصُورُ إِنَّمَا نَفْعَلُ هَذَا سِیَاسَةً لِلْجُنْدِ فَسَأَلْتُکَ بِاللَّهِ الْعَظِیمِ إِلَّا جَلَسْتَ فَجَلَسَ وَ دَخَلَتْ عَلَیْهِ الْمُلُوکُ وَ الْأُمَرَاءُ وَ الْأَجْنَادُ یُهَنِّئُونَهُ وَ یَحْمِلُونَ إِلَیْهِ الْهَدَایَا وَ التُّحَفَ
خلیفہ منصور نے امام موسی کاظم(ع) سے درخواست کی کہ ان کی جگہ نوروز کے دن کی مبارکبادی وصول کرنے بیٹھیں اور جو تحائف لائے جائیں ان کو قبول کریں۔ امام کاظم(ع) نے فرمایا: "میں نے اپنے جد رسول اللہ(ص) کی احادیث پر نظر ڈالی لیکن مجھے اس عید کے بارے میں کوئی تائید نہیں ملی۔ یہ ایرانیوں کا تہوار ہے جس پر اسلام نے خط ِ بطلان کھیچ دیا
ہے اور میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں ایسی چیز کو زندہ کروں جس سے اسلام نے منع کیا ہو"۔
منصور نے کہا کہ میں یہ سب فوجی سیاست کی وجہ سے کرتا ہوں اور میں آپ کو اللہ تعالی کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ
آپ بیٹھیں۔ امام(ع) پھر وہاں بیٹھے اور امراء اور سلاطین آتے گئے اور تہنیت دیتے رہے اور تحائف پیش کرتے رہے۔
(مناقب ابن شہر آشوب: ج4 ص 319، و ج3 ص433) (بحارالانوار: ج48 ص108، و ج95 ص419)
اس روایت سے دو نکات سامنے آتے ہیں؛
1) عباسی سلاطین نے اس عید کو باقاعدہ منانے کی رسم ڈالی اور اس کو انہوں نے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا
2) آئمہ اہل بیت(ع) نے ان کی اس روش سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور اس بات سے منع کیا کہ اس کو باقاعدہ اسلامی عید
سمجھا جائے اور اس دن کی جلالت و عظمت کے گن گائے جائیں۔
بعض علماء نے اس روایت کو تقیہ پر محمول کیا ہے لیکن ہم اس بات سے شدید اختلاف کریں گے۔ جیسا کہ واضح ہے کہ یہ عید عباسی خلفاء باقاعدہ منایا کرتے تھے اور نوروز کے دن تبریک کا یہ جلسہ بھی خود خلیفہ منصور نے منعقد کیا تھا، تقیّہ کا تقاضا تو یہ ہونا چاھئے تھا کہ امام کاظم(ع) منصور کی بات کو فورا قبول کر لیتے اور اعتراض نہ کرتے کیونکہ نوروز سرکاری سرپرستی میں منایا جا رہا تھا اور تقیہ ہمیشہ سلاطین کے خوف سے ہوتا ہے۔ لیکن امام کاظم(ع) کا کھل کر اعتراض
کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ امام(ع) کو اظہار کرنا پڑا۔
لہذا اس روایت کو تقیہ پر محمول کرنا غلط ہے۔ امام(ع) کا خلیفہ کی کسی بات پر اعتراض کرنے کو تقیہ پر محمول کرنا عجیب
بات ہے۔
نوروز کی فضیلت پر روایتیں:
نوروز کی فضیلت پر جتنی بھی روایتیں آئی ہیں سب کی سب معلّی بن خنیس سے منقطع اسناد سے نقل ہوئی ہیں، اور بظاہر لگتا ہے کہ ایک ہی روایت ہے جو مختلف کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔ معلّی بن خنیس ایسے راوی ہیں جن کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں، اکثریت ان کی توثیق کی قائل ہے لیکن ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کیونکہ ہمارے مدّعا کے اثبات کے لئے اس کی ضرورت نہیں ہے۔
معلّی بن خنیس کی روایتوں کو رد کرنے کے درج ذیل وجوہات ہیں؛
1۔ لفظ نوروز کی وجہ ِ تسمیہ اور اس کی تاریخ بذات خود اس روایت کو رد کرنے کے لئے کافی ہے۔
2۔ اسلام میں تمام عیدیں قمری کیلنڈر کے مطابق ہوتی ہیں، جبکہ نوروز ایسا دن ہے جو شمسی کیلنڈر کے مطابق قدیم فارس
کے مہینوں کے حساب سے ہوتا ہے۔
3۔ معلّی بن خنیس کی اسناد میں ضعف ہے اور متن میں اضطراب ہے۔ وثوق سندی اور وثوق صدوری دونوں حساب سے یہ
روایت ضعیف ہے۔
4۔ اس کے متن میں تناقضات اور تشویشات فراوان ہیں۔
5۔ اس روایت میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ تاریخی حقائق سے متصادم ہیں۔ مثلا اس روایت میں موجود ہے کہ اس دن مولا علی(ع) نے دوش رسول(ص) پر چڑھ کر بتوں کو توڑا، اور یہ واقعہ فتح مکّہ کے وقت ہوا۔ تمام شیعہ سنّی علماء کا اتفاق ہے کہ فتح مکّہ رمضان کے مہینے میں آٹھ ہجری میں ہوا۔ اور پھر اسی روایت میں ہے کہ نوروز والے دن ہی مولا علی(ع) کو غدیر میں خلیفہ مقرّر کیا گیا۔ عید غدیر حجّۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم میں رونما ہوا، یعنی آٹھارہ ذی الحج سن 10 ہجری
کو۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ فتح مکّہ اور واقعۂ غدیر دونوں نوروز کے دن ہوئے ہوں؟
اگر رمضان میں نوروز آئے تو کم سے کم آٹھ سال گزرنے چاھئیں کہ ذی الحجّہ میں نوروز آئے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سال بعد ہی نوروز 18 ذی الحجّہ کو آئے؟ لگتا ہے کہ اس روایت کے گڑھنے والوں نے عقل کا استعمال نہیں کیا، اور فارسی
میں مثال ہے؛ دروغگو را حافظہ نباشد۔۔۔۔ یہی چیز یہاں صدق ہوتی ہے۔
6۔ جیسا کہ عرض کیا گیا معلّی بن خنیس کی اپنی توثیق کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے لیکن ایک بات نہایت غور طلب ہے جو حسین بن عبیداللہ غضائری نے کہی:
و الغلاة یضیفون إلیه کثیرا (رجال ابن غضائری: ص87، رجال ابن داؤد: ص516، رجال علاّمه حلّی، ص259)
یعنی غلات کثرت سے باتیں گڑھ کر معلّی بن خنیس سے منسوب کر کے نقل کرتے تھے۔ لہذا ہم اگر ان کی توثیق کے قائل ہو بھی جائیں تو یہ احتمال اپنی جگہ موجود ہے کہ ان سے کوئی چیز جھوٹی تو منسوب نہیں کی جا رہی۔ مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے نوروز کی فضیلتوں والی روایتوں کے جعلی ہونے میں شک نہیں ہے تو قرین قیاس یہی لگتا ہے کہ ان سے یہ باتیں منسوب کر کے پھیلائی گئی ہیں۔
علماء و فقہاء کی آراء:
فقہاء کی اکثریت نے تسامح در ادلّہ سنن کے تحت معلّی بن خنیس کی روایت کو بنیاد بنا کر اس دن غسل اور دیگر اعمال کا استحباب نقل کیا ہے۔ آیت اللہ سیستانی سمیت کئی فقہاء نے نوروز کو ان دنوں میں شمار کیا ہے جن کے شرعی ہونے کی کوئی
دلیل نہیں ہے لیکن بطور رجاء اس دن غسل کیا جائے تو حرج نہیں ہے۔
یہاں ہم ایک نکتہ بیان کرتے چلیں کہ "تسامح در ادلّۂ سنن" وہاں قابل قبول ہے جہاں بظاہر ہمیں لگے کہ ممکن ہے یہ روایت معصوم(ع) سے صادر ہوئی ہوں، اس صورت میں ہم اس روایت پر عمل کریں تو ہم ثواب کی امید رکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے ثابت کیا کہ اس روایت کا صدور آئمہ(ع) سے صادر ہونا ممکن ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے تو اس قاعدہ کے استعمال کا بھی فائدہ نہیں ہے۔ جب ایک شخص پر ابتدا سے ہی واضح ہے کہ یہ روایت مجعولات میں سے ہے یا اس کے صدور کے بارے
میں ہم گمان بھی نہیں رکھ سکتے تو ہمیں ان روایتوں پر عمل بھی نہیں کرنا چاھئے۔
حکیم الامّت مجدّد دوراں امام خمینی علیہ الرّحمہ نوروز کے ایک پیغام میں فرماتے ہیں: "این عید ہر چند یک عید اسلامی
نیست، ولی اسلام آن را نفی نکردہ است"۔ (روزنامہ اطلاعات: شمارہ 27/12/74)
یعنی نوروز کوئی اسلامی عید نہیں لیکن اسلام میں اس کو (بطور تہوار) منانے سے منع بھی نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ امام خمینی کا یہ پیغام ایرانی قوم کے لئے تھا جو ازل سے اس دن کو مناتے آئے ہیں اور ان کے ہاں یہ ثقافت کا درجہ رکھتی ہے۔ ایرانی چاہے شیعہ ہو یا سنّی، مسلمان ہو یا یہودی، بہائی ہو یا زرتشتی سب اس دن کو بطور تہوار مناتے ہیں۔
لیکن امام خمینی کا یہ جملہ واضح ہے کہ یہ اسلامی عید نہیں، اس سے ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
آقا رضی قزوینی جو گیارہویں صدی ہجری کے ایک عالم گزرے ہیں انہوں نے بھی ایک رسالہ نوروز کے شرعی عید ہونے کی رد میں لکھا۔
محمد اسماعیل خواجوی جو بارہویں صدی ہجری کے معروف عالم گزرے ہیں انہوں نے بھی معلّی بن خنیس کی روایت کو تناقضات کی وجہ سے رد کیا جن کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں، اور اس بات کی شدّت سے تصریح کی ہے کہ معصوم کے کلام میں تناقض بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
استاد محمد تقی مصباح "بحارالانوار" کے حاشیے میں لکھتے ہیں:
"نوروز کے بارے میں ہم تک دو طرح کی راویتیں پہنچی ہیں، ایک طرف معلّی بن خنیس سے روایتیں ہیں جو اس دن کی فضیلت و عظمت کے بارے میں ہیں، اور دوسری امام کاظم(ع) سے منسوب روایت ہے جس میں انہوں نے اس دن کو مجوسیوں کی سنّت قرار دیا جس پر اسلام نے خط بطلان کھینچا۔
جان لو کہ یہ دونوں روایتیں (سند کے لحاظ سے) صحیح نہیں ہیں اور ان کی بنیاد پر کوئی حکم شرعی اخذ نہیں کیا جا سکتا، اور یہ بات بھی مدّنظر رہے کہ معلّی بن خنیس پر دیگر اشکالات وارد ہوتے ہیں جن میں سے ایک نوروز کی تطبیق عربی مہینوں کی مناسبتوں کے حساب سے مخالفت ہے۔"
پھر آگے چل کر آپ لکھتے ہیں؛
"منصور والی روایت کا ظاہر کہتا ہے کہ نوروز کا دن منانا (شرعی عید کے طور پر) حرام ہے، کیونکہ یہ امر گذشتہ سنّتوں اور شعائر کفّار کو زندہ رکھنے کا باعث بن رہی ہے جن کو اسلام نے ختم کیا ہے۔ گو کہ یہ روایت حجیّت کے شرائط پر پورا نہیں اترتی، لیکن اس قاعدہ کلّیہ کے مطابق جو کہتی ہے کہ کفار کے شعائر کی تعظیم جائز نہیں ہے، ثابت ہے۔ اور نوروز ان آداب و رسوم میں شامل ہے جو کفار کے شعائر میں سے ہے چنانچہ اس روایت کا متن اس قاعدے کے حساب سے ثابت ہوتا ہے۔
امّا فقہاء نے جو اس دن کے روزے اور غسل کے استحباب پر بات کی ہے وہ قاعدہ تسامح در ادلّہ سنن کے تحت ہے۔ لیکن یہاں اس قاعدے کا اجرا نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ قاعدہ وہاں استعمال نہیں ہو سکتا جہاں اس کام کے حرام ہونے کا احتمال پایا جائے۔"
(حاشیہ بر بحارالانوار از تقی مصباح: ج56 ص100 (فٹ نوٹ)
آقا سیّد جواد مدرّسی اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں؛
"روایات میں اختلاف، قدماء کا نوروز کی فضیلت کی روایات سے اعراض، مخدوش متن اور سند کی عدم ِ صحت کی وجہ سے نوروز کے دن کی مشروعیت پر فتوی نہیں دیا جا سکتا اور اس دن کا تعین بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جو راستہ باقی بچتا ہے وہ "تسامح در ادلّۂ سنن" ہے۔۔ عید نوروز مجوسیوں کے شعائر میں سے ہے اور احتمال ہے کہ اس کا منانا حرام ہو، چنانچہ تسامح در ادلّہ سنن کا استعمال یہاں صحیح نہیں ہے۔"
(مجلّہ نور ِعلم، شمارہ 30)
ہمارے استاد رسول جعفریان اس بارے میں فرماتے ہیں؛
"جو کچھ بھی چھٹی صدی ہجری میں شیعہ منابع میں نقل ہوا ہے وہی ہیں جو معلّی بن خنیس سے منقول ہیں، اس کے علاوہ ہمیں نوروز کی کوئی تائید نہیں ملتی۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہمیں نوروز کے روزے اور غسل کے استحباب کے بارے میں ملتا ہے وہ انہی روایتوں کی بنیاد پر ہے۔ اس کے علاوہ دیگر باتیں بھی ان روایتوں میں بیان ہوئی ہیں جن کو ہم بیان کریں گے۔ ان دو روایتوں میں (جن کو ابن فہد حلّی نے نوروز کی فضیلت میں نقل کیا ہے) اشکال یہ ہے کہ یہ روایات قدیم شیعہ منابع میں نہیں ہیں۔ یہ دو روایتیں جو حقیقت میں ایک ہی روایت ہے نوروز کے بارے میں دو الگ الگ باتوں کی اطلاع دے رہی ہیں، اور یہ بذات خود ان روایتوں کے بارے میں شبہہ کا باعث ہے اور ان کے جعلی ہونے کے خیال کو تقویت دی رہی ہیں۔
اس کے علاوہ ابن غضائری نے جیسا کہا ہے کہ "غالیوں نے معلّی بن خنیس سے نسبت دے کر باتیں گڑھی ہیں، لہذا اس کی راویتوں پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ " اس صورت میں یہ روایتیں جن میں غالیانہ افکار اور افراط واضح ہے، ممکن ہے کہ وہی جعلی روایتیں ہوں جو معلّی بن خنیس سے نسبت دے کر رواج دے دی گئی ہوں۔
یہ دو نکتے بھی قابل غور ہیں کہ قرامطی (اسماعیلیوں کا افراطی گروہ) سال میں دو دن روزہ رکھتے تھے؛ مہرگان اور نوروز۔ اور دوسرا نکتہ یہ کے مجوسی نہ صرف نوروز کے دن روزہ نہیں رکھتے بلکہ البیرونی کے بقول ان کے ہاں روزہ
ہی نہیں ہے اور ان کے ہاں جو بھی روزہ رکھے تو یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے گناہ کیا ہے۔"
(نامہ مفید: شمارہ 6)
نتیجہ گیری:
اس تمام گفتگو کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شریعت میں نوروز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کو اسلامی عید سمجھنا اور اس کی جلالت و عظمت کا پرچار کرنا جائز نہیں ہے البتہ ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ بطور ایک تہوار نوروز منانے کے ہم مخالف نہیں ہیں۔ البتہ وہی لوگ نوروز منائیں جن کی تہذیب و ثقافت میں یہ تہوار موجود ہو۔ یہ جشن بہاراں کا ایک تہوار ہے اور ممکن ہے کہ ہر جگہ یہ جشن مختلف دنوں علاقائی روایات کے مطابق منایا جائے جیسا کہ ہندوستان و پاکستان میں بسنت کا تہوار منایا جاتا ہے۔
ان خرافات کو اپنے درمیان سے نکال دیں کہ اس دن فلاں فلاں اسلامی واقعات ہوئے۔ اس دن کو مولا علی(ع) سے کوئی نسبت نہیں ہے اور جو ایسا کہے یا سمجھے تو وہ یقینا متون ِ شیعہ سے نابلد ہے۔