Monday, 6 March 2023، 11:19 PM
تعلیمات اسلامی کی روشنی میں صلہ رحمی کی اہمیت و افادیت
6مارچ , 2023
صلہ رحمی (یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور ان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنے کا عمل) حسن اخلاق کی ایک اور علامت، اسلام کے پسندیدہ آداب کا ایک حصہ اور لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کی ایک دلیل ہے۔ یہاں چند نکات پر بحث ضروری ہے۔
پہلا نکتہ ”رحم“ سے کیا مراد ہے؟
رشتہ داری کی دو قسمیں ہیں:
1۔نسبی۔ 2۔سببی
نسبی رشتہ داری سے مراد وہ رشتہ ہے جو نطفہ، خون اور بطن کی وحدت سے وجود میں آئے۔ اس قسم کے رشتہ داروں کو رحم کہتے ہیں۔ سببی رشتہ داری وہ ہے جو شادی و نکاح کے ذریعے حاصل ہو مثال کے طور پر میاں بیوی اور ان دونوں کے رشتہ داروں کا آپس میں رشتہ۔
دوسرا نکتہ صلہ رحمی کیا ہے؟
صلہ رحمی سے مراد خویش و اقارب سب کے ساتھ نیکی کرنا اور ان کا خیال رکھنا ہے ان لوگوں کا حق دوسروں کی نسبت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ میں نسبی رشتہ داروں پر زیادہ توجہ دی گئی ہے چنانچہ اگر کسی شخص کے اوپر مالی واجبات ہوں او ر اس کے رشتہ داروں میں مستحق افراد موجود ہوں تو انہیں دوسروں پر مقدم رکھنا چاہیے۔ قرآن مجید نے رشتہ داروں کی مدد کرنے کو مالداروں کی مالی ذمہ داریوں میں شامل قرار دیا ہے۔ خویش و اقارب کی مدد کا تذکرہ کرتے وقت اسے واجب حق کے طور پر ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
”اور قریبی رشتہ دار کا حق ادا کرو(اسی طرح) مسکین اور بے چارے مسافر کا بھی حق ادا کرو۔ اور اسراف و تبذیر سے کام نہ لو۔“ (سورہ اسراء، ۶۲)
تیسرا نکتہ: قرآن و حدیث میں صلہ رحمی کا بیان:
قرآن کی نظر میں صلہ رحمی کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کے ساتھ اس کا ذکر فرماتا ہے:
ارشاد ہوتا ہے:
”اور اللہ سے ڈرو(جس کی عظمت کے تم سب قائل ہو اور) جس کا نام تم ایک دوسرے سے کوئی چیز مانگتے وقت لیتے ہو۔ نیز اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ کرو کیونکہ اللہ تمہارے اوپر نظر رکھے ہوئے ہے۔“ (سورہ نساء آیت ۱)
جمیل ابن دراج نامی راوی کا بیان ہے: میں نے اس آیت میں مذکور لفظ”ارحام“ کے بارے میں امام صادق ؑ سے سوال کیا تو امام ؑ نے فرمایا:
”اس سے مراد لوگوں کے خویش و اقارب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور ان کی عزت افزائی فرمائی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ لیا ہے۔“
قرآن مجید میں صلہ رحمی کی اس قدر تاکید اور مذکورہ آیت میں خداوندمتعال کے نام کے بعد خویش و اقارب کا ذکر اسلام کی نظر میں صلہ رحی کی اہمیت کی دلیل ہے اس قدر زیادہ تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فریضے کو ترک کرنا برے نتائج کا باعث بنتا ہے۔
چوتھا نکتہ: صلہ رحمی کے فوائد:
الف:۔ عمر کا طولانی ہونا۔
صلہ رحمی کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے عمر طولانی ہوتی ہے۔ اس بارے میں یہ حدیث ملاحظہ ہو جس میں امام ہشتم حضرت علی بن موسیٰ الرضا ؑ فرماتے ہیں:
”گاہے کوئی شخص صلہ رحمی کرتا ہے جبکہ اس کی عمر تین سال رہ گئی ہو لیکن اللہ (صلہ رحمی کے باعث) اسے تیس سال میں بدل دیتا ہے۔ اور اللہ جو چاہے انجام دیتا ہے۔“
ب:۔ رزق میں اضافہ۔
صلہ رحمی کا ایک اور فائدہ رزق میں اضافہ ہے۔ اس بارے میں ہم یہاں ایک حدیث نقل کرتے ہیں۔
حضرت امام سجاد ؑ رسول اللہؐ سے روایت فرماتے ہیں:
”جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔“
ج:۔ اعمال کا پاکیزہ ہونا۔
ایک حدیث میں صلہ رحمی کا ایک فائدہ یہ بیان ہوا ہے کہ اس سے اعمال پاک ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ حضرت امام باقر ؑ کا ارشاد ہے۔
”صلہ رحمی کے باعث اعمال پاک ہو جاتے ہیں۔ بلائیں دور ہوتی ہیں۔ اموال میں برکت آتی ہے۔ عمر طولانی ہوتی ہے۔ رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور آدمی اپنے گھرانے میں محبوب بن جاتا ہے پس اسے چاہیے کہ اللہ سے ڈرے اور اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے۔“
د:۔ قیامت کے دن حساب میں آسانی۔
حضرت امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا ہے:
”صلہ رحمی کی وجہ سے قیامت کے حساب میں آسانی ہو جاتی ہے۔ عمر طولانی ہو جاتی ہے اور بری موت سے محفوظ رہتا ہے۔“
ھ:۔ شہروں کا آباد و شاد ہونا۔
ارشاد ہے:
”صلہ رحمی اور ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک شہروں کو آباد اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں۔“
و:۔ صلہ رحمی دین کا جز ہے۔
حدیث ہے:
”میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو نیز ان کو جو مردوں کے صلب اور عورتوں کے ارحام میں ہیں قیامت تک کے لئے یہ وصیت کرتا ہوں کہ وہ صلہ رحمی کریں اگرچہ وہ (رشتہ دار) ایک سال کی مسافت کے فاصلے پر ہوں کیونکہ یہ دین کا حصہ ہے۔“
یہ تھی صلہ رحمی کے آثار و فوائد کی ایک جھلک۔ آئیے اب ہم رشتہ داروں سے صلہ رحمی نہ کرنے (قطع رحم) کے نتائج کا جائزہ لیں۔
پانچواں نکتہ: قطع رحم کے برے اثرات
رشتہ داروں سے قطع رحمی یقینا گناہ کبیرہ اور عذاب اخروی کا موجب ہے۔ قرآن مجید میں اس سے سخت منع کیا گیا ہے۔ اس عمل کے کچھ اثرات یہ ہیں۔
الف:۔ لعنت خداوندی کا موجوب۔
چنانچہ ارشاد قرآنی ہے:”تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ اگر تم روگردان ہو جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور اپنے قرابت داروں سے قطع تعلق کرلو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے۔“ (سورہ محمد آیت ۳۲۔۲۲)
ایک اہم نکتہ
شاید کچھ لوگ خیال کریں کہ صلہ رحمی کے بارے میں اس قدر تاکید صرف ان لوگوں سے مختص ہے جو کافی مال و ثروت رکھتے ہوں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ یہ عظیم فریضہ انہیں ایک گھونٹ پانی پلا کر یا ان کو نہ ستا کر یا ایک دوسرے کو سلام کرکے بھی نبھایا جاسکتا ہے اور اس طرح صلہ رحمی کا ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے:
”اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو اگرچہ ایک گونٹ پانی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو اور صلہ رحمی کی بہترین راہ یہ ہے کہ رشتہ داروں کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔“
چھٹا نکتہ: رشتہ داروں سے قطع تعلق احادیث کی روشنی میں:
رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے اور صلہ رحمی نہ کرنے کے بارے میں احادیث ہیں جن کے چند نمونے یہاں ملاحظہ ہوں۔
الف:۔ یہ شرک کا ہم پلہ ہے۔
”کسی شخص نے نبی کریم ؐ سے سوال کیا کہ کونسا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا۔ عرض کیا اس کے بعد؟ فرمایا رشتہ داروں سے تعلقات توڑلینا۔“
ب:۔ خدا کی رحمت سے دوری۔
امام زین العابدین ؑ نے اپنے فرزند ارجمند امام محمد باقر ؑ سے اپنی وصایا میں فرمایا:
”(اے میرے فرزند) ان لوگوں کی مصاحبت سے احتراز کرو۔ جو اپنے رشتہ داروں سے ناطہ توڑ لیتے ہیں (اور ان سے اچھا سلوک نہیں کرتے) کیونکہ میں نے ان کو قرآن میں تین مقامات پر ملعون پایا ہے۔ پھر امام ؑ نے سورہ محمدؐ کی چوبیسویں اور پچیسویں آیت نیز سورہ رعد کی پچیسویں آیت اور سورہ بقرہ کی ستائیسویں آیت کی تلاوت فرمائی۔
ج:۔بہشت سے محرومی۔
رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے:
”تین قسم کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ شرابی، جادوگر اور رشتہ داروں سے حسن سلوک نہ کرنے والا (قطع رحمی کرنے والا)۔“
خلاصہ یہ کہ جو شخص اخلاق حسنہ کو اپنانے کا دعویدار ہو اسے چاہیے کہ وہ اس اصول پر جسے اسلام نے بڑی اہمیت دی ہے سنجیدگی سے عمل پیرا ہوکیونکہ اس سے بے اعتنائی باعث تباہی ہے۔
آیت اللہ مہدوی کنی
۰
۰
23/03/06