رمضان المبارک کے تئیسویں دعا کی دعا
رمضان المبارک کے تئیسویں دن کی مخصوص دعا اور مختصر توضیح
أَللّـهُمَّ اغْسِلْنى فیهِ مِنَ الذُّنُوبِ وَ طَهِّـرْنى فیـهِ مِـنَ الْعُـیُوبِ وَ امْتَحِنْ قَلْبى فیهِ بِتَقْوَى الْقُلُوبِ یـا مُقیـلَ عَثَـراتِ الْمُذْنِبـینَ۔
ترجمہ:اے میرے معبود! اس دن میرے وجود کو گناہوں کی آلودگی سے صاف کردے،اور مجھے عیوب و نقائص کی گندگی سے پاک کردے،اور آج دلوں کی پرہیزگاری کے درمیان میرے قلب کو سرخرو کردے،اے عاصیوں کے گناہوں سے درگذر کرنے والے۔
اہم نکات
۱)پاک و پاکیزہ بنانے والے توبہ کے چشمےکے کنارے؛۲)قلب و جگر کے تقوا کی پرواہ۔
دعائیہ فِقرات کی مختصر تشریح
۱–أَللّـهُمَّ اغْسِلْنى فیهِ مِنَ الذُّنُوبِ:
ذَنْب کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے، جس کی جمع ذُنُوب ہے۔ زیادہ تر لوگ ذُنُوب کو ایک غلط اور ناقص مفہوم میں لیتے ہیں،آگے چلنے سے پہلے ہم پر دو چیزوں کا فرق واضح ہوجانا ضروری ہے: ایک ہے ’ادائے مطلوب‘ اور دوسرا ہے ’اجتنابِ ممنوع‘،اگر ہم ’ادائے مطلوب‘ نہیں کرتے تو ’ذنب‘ (گناہ) کرتے ہیں اور اگر ’اجتنابِ ممنوع‘ نہیں کرتے تو ذنب کے ''مرتکب ''ہوتے ہیں، البتہ لفظ ’ذنب‘ کا تعلق اہل علم کے نزدیک اول الذکر سے زیادہ ہے جبکہ عوام الناس اس کا تعلق ثانی الذکر سے زیادہ جوڑتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ایک عامی جب ’توبہ‘ کرتا ہے یا ’استغفار‘ کرتے ہوئے اپنے ’گناہوں‘ کی بخشش مانگتا ہے تو اس کے ذہن میں اس وقت ’گناہ‘ سے مراد ’ارتکابِ ممنوع‘ ہی ہوتاہے! بلکہ بسا اوقات تو اس کے لئے یہ تصور کرنا دشوار ہوتا ہے کہ کئی دنوں یا مہینوں سے اس نے خدا کے حق میں کیا ’گناہ‘ کیا ہے! ایک آدمی صبح سے شام تک گھر میں بیٹھا ہے، نہ اُس کی ’نظر‘ کہیں اِدھر اُدھر گئی، صبح سے لے کراب تک نہ وہ کسی کے ساتھ ’بولا‘۔ نہ کوئی بات ’سنی‘۔ نہ ’ہاتھ‘ سے کسی کے ساتھ زیادتی کی اور نہ ’پیروں‘ سے چل کر کہیں غلط جگہ گیا، اب اس کیلئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ صبح سے لے کر اب تک اِس سے آخر ’گناہ‘ کونسا ہوا ہے!وجہ یہی ہےکہ وہ سمجھتا ہے ’غلط کام‘ کرنا ہی ’گناہ‘ ہے، البتہ ’صحیح کام‘ نہ کرنا اس کے ہاں ’گناہ‘ شمار نہیں ہوتا،’ادائے مطلوب‘ اور ’اجتنابِ ممنوع‘۔۔ ہر دو کا چھوٹ جانا ’ذنب‘ ہے۔ اسی بات کو دوسرے الفاظ میں کچھ یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے:
جاننا چاہیے کہ گناہ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ”گناہ ِمطلق“ دوسرے ”گناہ ِنسبی“ گناہِ مطلق کے مفہوم میں نہی ٔتحریمی کی مخالفت اور خدا کے فرمان قطعی اور ہر طرح کے واجب کو ترک کرنا یا کوئی حرام کام انجام دینا شامل ہے ۔
لیکن گناہ نسبی یہ ہے کہ کسی بلند پا یہ شخص سے کوئی ایسا غیر حرام عمل انجام پائے جو اس کی شان اور مقام کے مناسب نہ ہو کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی عمل مباح و جائز، بلکہ عمل مستحب ایک بڑے درجہ کے انسان کے مناسب نہ ہو، ایسی صورت میں اس عمل کو ”گناہ نسبی“ کہا جائے گا، مثلاً اگر کوئی با ایمان اور ثروتمند شخص کسی فقیر کو فقر و افلاس کے پنچے سے نجات دینے کے لئے اس کی بہت معمولی اور کم مقدار میں مدد کرے ۔ بلا شبہ یہ مدد چاہے کتنی بھی کم ہو حرام تو نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، لیکن جو بھی سنے گا،اس کو ایسا لگے گا گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہے ؛یہ اس وجہ سے ہے کہ اس صاحب ایمان ثروت مند سے زیادہ مدد کی توقع کی جاتی تھی ۔
اسی نسبت سے جو اعمال مقربان بارگاہ الٰہی سے سر زد ہوتے ہیں، وہ ان کے مقام کے لحاظ سے پر کھے جاتے ہیں اگر وہ ان کے معیار پر پورے نہ اتریں تو اس کے لئے بھی کبھی عصیان یا ذنب (گناہ) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔(۱) مثال کے طور پر ایک نماز (جس میں حضور قلب نہ ہو) ایک عام شخص کے لحاظ سے ایک ممتازنماز محسوب کی جائے گی لیکن یہی نماز اولیائے حق کے لحاظ سے ”گناہ“ شمار ہوگی، کیونکہ ان کے مقام کے لحاظ سے حالت نماز میں ایک لحظہ کی غفلت مناسب و شائستہ نہیں ہے بلکہ انھیں اپنے علم و تقویٰ کی بناء پر ہنگام عبادت میں اس کے جمال و جلال میں غرق ہوجانا چاہیے ۔
عبادت کے علاوہ ان کے دیگر اعمال کا حال بھی یہی ہے ۔ انھیں بھی ان کے مقام کے لحاظ سے جانچا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے اگر ایک ”ترکِ اولیٰ“ ان سے سرزد ہوجائے تو وہ پروردگارِ عالم کے عتاب و سرزنش کا باعث بنے گا (ترکِ اولیٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی بہتر کام کو ترک کرکے کار خوب یا عمل مباح بجالائے) ۔
روایاتِ اسلامی میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت یعقوبAمصائب اورفراق فرزندکے سلسلے میں انہیں جو زحمتیں اٹھانا پڑیں اس وجہ سے تھیں کہ ایک محتاج روزہ دار مغرب کے وقت ان کے دروازہ پر آیا اور انھوں نے اس کی مدد سے غفلت کی جس کی وجہ سے وہ فقیر بھوکا اور دلشکستہ واپس چلاگیا ۔
یہ عمل اگر ایک عام فرد سے سرزد ہوا ہوتا تو شاید اس کی اس قدر اہمیت نہ ہوتی لیکن خدا کے ایک عظیم پیغمبر اور رہبر امت سے جب یہ عمل ظاہر ہوا تو خدانے اسے اتنی اہمیت دی کہ ان کیلئے نہایت شدید عقوبت مقرر کی[1] ۔۔۔
دعائے کمیل کے ان آفاقی جملوں پر بھی توجہ فرمائیں:
خدایا ۔۔
میرے وہ سب گناہ بخش دے جو تیری ناموس کو داغدار کردیتے ہیں
میرے وہ سب گناہ بخش دے جو باعث نزول بلا ہو جاتے ہیں
میرے وہ سب گناہ بخش دے جو نعمتوں کو بدل دیتے ہیں
میرے وہ سب گناہ بخش دے جو دعاؤں کو قبولیت سے روک دیتے ہیں
میرے وہ سب گناہ بخش دے جو امیدوں کو پورا نہیں ہونے دیتے
بس اے میرے پاک و پاکیزہ رب
میرے وہ سب گناہ بخش دے جو میں نے کیے ہوں یا مجھ سے ہو گئے ہوں
۲–وَ طَهِّـرْنى فیـهِ مِـنَ الْعُـیُوبِ:
پرسنالٹی یعنی شخصیت کی اہمیت کے سبھی معترف ہیں اس کی بناء پر کتنے افراد فوراً دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں، انہیں زندگی کی ہر سطح پر پذیرائی ملتی ہے ، جبکہ ایسے ہی کتنے لوگ ہمارے ارد گرد موجود ہیں،جنہیں ہم روز دیکھتے ہیں اور سرسری انداز سے دیکھ کر رہ جاتے ہیں، انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے، مگر یہ سمجھ لینا کہ میرے پاس قد ، نہیں ، یا صحت نہیں یا رنگ نہیں یا صورت نہیں ، لہذا میں کوئی شخصیت نہیں ، ایک غلط سوچ ہے،حقیقتاً ایک مقناطیسی شخصیت کے لئے ان چیزوں کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے، بنیادی نہیں، اسی لئے یہ ظاہری چیزیں عیب نہیں ہیں،ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کرجہانِ آخِرت کے سفر پر روانہ ہونا ہے،اس سفر کے دوران ہمیں قبرو حشر اور پُلْ صِراط کے نازُک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا ، اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دارِ آخِرت کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب بنتے ہیں،جس طرح کچھ نیکیاں ظاہِری ہوتی ہیں جیسے نماز اورکچھ باطِنی مثلاً اِخلاص، اسی طرح بعض گناہ اور عیوب بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اوربعض باطِنی جیسے تکبُّر، اس پُر فِتَن دور میں اَوَّل تو گناہوں سے بچنے کا خیال ہی ذہن میں بہت ہی کم آتا ہے اور جوخوش نصیب گناہوں کے عِلاج کی کوشِشیں کرتے بھی ہیں تو ان کی زیادہ تَر توجُّہ ظاہری گناہوں سے بچنے پر ہوتی ہے، ایسے میں باطِنی عیوب کا عِلاج نہیں ہوپاتا حالانکہ یہ ظاہری عیوب کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ایک باطِنی عیب بے شمار ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے، مثلاً قتل، ظُلم ،غیبت ، چُغلی، عیب دَری جیسے گناہوں کے پیچھے کینے اور کینے کے پیچھے غصے کا ہاتھ ہونا ممکن ہے ، چنانچہ اگر باطِنی گناہوں اور عیوب کا تسلّی بَخْش عِلاج کرلیا جائے تو بہت سے ظاہِری گناہوں سے بچنا بے حد آسان ہوجائے گا کیونکہ ظاہری اَعمال کا باطنی اَوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلُّق ہے، اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اَعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حَسَد، رِیا اور تکبُّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی دُرُست ہوتے ہیں، باطنی گناہوں اور عیوب کا تعلق عموماً دل کے ساتھ ہوتا ہے، لہٰذا دل کی اِصلاح بہت ضروری ہے۔ ۔۔
۳–وَ امْتَحِنْ قَلْبى فیهِ بِتَقْوَى الْقُلُوبِ:
ہمارے دل صبح و شام امتحانات کا سامنا کر رہے ہیں زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے دلوں کو آزما رہا ہے ٹٹول رہا ہے کیا ہم اس سے باخبر ہیں ؟ہماری غفلت یا ہماری ایک غلطی اس دل کی زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے ۔ وَ لِیَبْتَلِیَ اللَّهُ مَا فِی صُدُورِکُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِی قُلُوبِکُمْ وَ اللَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ؛؛ اور خدا تمہارے دلوں کے حال کو آزمانا چاہتا ہے اور تمہارے ضمیر کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہے اور وہ خود ہر دل کا حال جانتا ہے[2]۔أُولٰئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَ أَجْرٌ عَظِیمٌ ؛یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقویٰ کے لئے آزمالیا ہے اور ان ہی کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے[3]۔
دل کے چند مقاماتِ امتحان :
الف) عبادت :مثلاً نماز، صدقہ ، روزہ ، حج وغیرہ آزمائش اور امتحان کے مقام ہیں ان میں آزمائش اس بات کی ہے کہ ان عبادات کے مواقع پر دل میں کتنا اخلاص ہوتا ہے دکھلاوے کا جذبہ کتناہے ؟۔اللہ ٰ کا ارشاد ہے:وَ قَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُوراً ؛پھر ہم ان کے اعمال کی طرف توجہ کریں گے اور سب کو اڑتے ہوئے خاک کے ذرّوں کے مانند بنا دیں گے [4]۔
ب) علم :دلوں کے امتحان کے لئے یہ ایک وسیع میدان ہے اس میں بہت سے لوگ فیل ہوجاتے ہیں ناکام و نامراد رہتے ہیں مثلاً ایک گروہ نے علم تو صرف اللہ کی رضا کے لئے حاصل کیا مگر پھر انکی نیت پھر گئی خفیہ خواہشات، شہرت ،عہدے، ہم عصروں پر برتری، مناظرے اور جھگڑے اور بحث مباحثوں میں کامیابی حاصل کرنے کی طرف لگ گئے۔۔۔
ج)اختلافات ،بحث و مباحثہ،جھگڑنا: یہ بھی شیطان کے چراگاہوں میں سے اہم ترین چراگاہ ہے بلکہ اس کی کھیتی ہے اسی لئے اللہ نے ہمیں اس معاملے سے نمٹنے کا طریقہ سمجھا دیا ہے ۔ ادْعُ إِلَى سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِهِ وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ؛ آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بہک گیا ہے اور کون لوگ ہدایت پانے والے ہیں[5]۔چونکہ اکثر بحث یا جھگڑے کی نوبت تب آتی ہے جب حق کے لئے بحث کی جا رہی ہو اور پھر وہ ذاتیات تک آجائے تو تب دلوں کا صحیح معنوں میں امتحان ہوتا ہے۔۔۔۔
د)خواہشات: اکثر لوگ صرف اسی کو دلوں کا امتحان سمجھتے ہیں مثلاً خواہش مال ، عورت ، گاڑی ، اولاد، گھر وغیرہ اگرچہ یہ چیزیں بھی آزمائش کا ذریعہ ہیں ۔إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَ أَوْلاَدُکُمْ فِتْنَةٌ وَ اللَّهُ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِیمٌ ؛ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے صرف امتحان کا ذریعہ ہیں اور اجر عظیم صرف اللہ کے پاس ہے[6]۔
ہ)عہدے: عہدوں کے لئے کتنے دل نفرتوں سے بھر جاتے ہیں اور خیالات کتنے پراگندہ ہوجاتے ہیں بہت کم لوگ ہوں گے جو ان خرابیوں سے محفوظ ہوں گے ۔ حسد، بغض، نفرت، کینہ، غبن ان سب کا سبب اکثر یہی عہدے اور مناصب ہوتے ہیں ۔
و)حسب نسب: دل کے امراض کے لئے یہ بھی ایک زرخیز میدان ہے۔ خاندانی تفاخر و غرور ایسی بیماریاں ہیں جو خاندانی تکبر سے پھوٹتی ہیں اس میں پیدا ہوتی ہیں اور پھلتی پھولتی ہیں۔
دل کے ان امراض کے بہت سے اسباب ہیں جن سے واقفیت ضروری ہے ان میں سے اہم ترین اسباب مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱۔جہالت۔ ۲۔فتنے۔ ۳۔نافرمانیاں۔ ۴۔شبہات۔ ۵۔اللہ کے ذکر سے غفلت۔ ۶۔خواہشات۔ ۷۔برے دوست۔ ۸۔حرام خوری جیسے سود، رشوت وغیرہ۔ ۹۔غیبت ، چغلی۔ ۱۱۔اللہ نے جن چیزوں کو دیکھنا حرام قرار دیا ہے انہیں دیکھنا۔ ۱۲۔دنیوی اغراض میں منہمک ہونا اور انہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنانا۔
۴–یـا مُقیـلَ عَثَـراتِ الْمُذْنِبـینَ:
اے عاصیوں کے گناہوں سے درگذر کرنے والے! ہمارے حال پرتوجہ دے اور رحم فرما اور ہمیں ہر طرح کی پلیدگی سے دور رکھ۔
نتائج
دعا کا پیغام:1- گناہوں کی بخشش کی درخواست؛2- عیوب سے پاک ہونے کی گزارش؛3- قلب کے تقوا کے ذریعہ امتحان و آزمائش؛4- خدا کا توبہ کو قبول کرنا۔
منتخب پیغام:ہمارے اعضاء و جوارح میں سے ہر ایک، خود اپنے لیے ایک منزلت و مقام اور کچھ حقوق رکھتے ہیں کہ جنکے بارے میں تقوے کی رعایت بہت ہی ضروری ہے، قرآن نے تقوا کو دل سے منسوب کیاہے: «ذَلِکَ وَ مَن یُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ؛ یہ ہے حقیقت حال! اور جو کوئی شعائر اللہ کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے[7]۔ »
اگر ہم چاہتے ہیں کہ تقوا اختیار کریں تو سب سے پہلے دل کو متقی بنانا ہوگاتاکہ اسکے ذریعہ سے جسم بھی پرہیزگار ہوجائے۔
[1] – تفسیر ”نورالثقلین“ جلد دوم ص ۴۱۱ نقل از کتاب”علل الشرایع“
[2] – آل عمران:154
[3] – الحجرات:3
[4] – الفرقان:23
[5] – النحل:125
[6] – التغابن:15
[7]– حج، آیه 32