رمضان المبارک کے چھبیسویں دن کی دعا
رمضان المبارک کے چھبیسویں دن کی مخصوص دعا اور مختصر توضیح
أَللّـهُمَّ اجْعَلْ سَعْیى فیهِ مَشْکُورا وَ ذَنْـبى فیـهِ مَغْـفُـوراً وَ عَمَـلى فیـهِ مَقْـبُـولاً وَ عَیْـبى فیـهِ مَسْتُـوراً یا أَسْـمَعَ السّـامِعـینَ۔
اے میرے معبود! آج کے دن تیری راہ میں کی گئی میری کوششوں کو کامیابی عطا کر،اور میرے گناہوں پر خط عفو کھینچ دے میرے اعمال کو شرف قبولیت بخش دے اور میرے عیوب کو اپنے دامن کرم میں چھپالے، اے ہر ایک پکار پر گوش برآواز رہنے والے۔
(۱) ثمر بخش کد و کاوش لائق تعریف؛
(۲) سعئ مشکور کیا ہے؟
(۳)سعی کیا ہے؟
(۴)کن افراد کی سعی مشکورہے؟
(۵)مقبول عمل کیا ہے؟
دعائیہ فِقرات کی مختصر تشریح
1–أَللّـهُمَّ اجْعَلْ سَعْیى فیهِ مَشْکُورا:
سعی سے مراد وہ وہ پورا کارنامۂ حیات ہے جو بندے نے دنیا میں انجام دیا ، جن کاموں میں اس نے محنتیں اور جن مقاصد کے لیے اس نے اپنی کوششیں صرف کیں ان سب کا مجموعہ اس کی سعی ہے اور اس کے مشکور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں وہ قابل قدر قرار پائی ، شکریہ جب بندے کی طرف سے خدا کے لیے ہو تو اس سے مراد اس کی نعمتوں پر احسان مندی ہوتی ہے ، اور جب خدا کی طرف سے بندے کے لیے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی خدمات کی قدر فرمائی ۔ اللہ کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ بندہ جب اس کی مرضی کے مطابق اپنا فرض انجام دے تو وہ اس کا شکریہ ادا کر ے اور کہے:إِنَّ هٰذٰا کٰانَ لَکُمْ جَزٰاءً وَ کٰانَ سَعْیُکُمْ مَشْکُوراً ؛ یہ تمہاری جزا ہے اور تمہاری کوشش شکرگزاری کے قابل ہے[1]۔
2–وَ ذَنْـبى فیـهِ مَغْـفُـوراً:
گناہ کی بخشش اور مغفرت کے کئی ایک راستے اور ذرائع ہیں جن کا خلاصہ پانچ موضوعات میں کیا جا سکتا ہے :
«۱» توبہ: گذشتہ گناہوں پر پشیمانی اور آئندہ گناہوں سے اجتناب کے پختہ ارادے کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن ہونا اور برے اعمال کی نیک اعمال کے ذریعے عملی طور پر تلافی کرنا ۔ جو آیات اس معنی پر دلالت کرتی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں ۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے : وَ هُوَ الَّذِی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَ یَعْفُو عَنِ السَّیِّئَاتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ؛ اور وہی وہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ کوقبول کرتا ہے اور ان کی برائیوں کو معاف کرتا ہے اور وہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے[2]۔
«۲» بہت زیادہ نیک کام کرنا : یہ بھی برے اعمال کی بخشش کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ہ :إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ ؛ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں[3]۔
«۳»شفاعت: میزانِ قیامت میں وزن صرف حق کا ہوگا،میزان میں جن کی نیکیوں کا وزن زیادہ ہوگا وہ جنت میں جائیں گے اور جن کی بدیوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ جہنم رسید ہوں گے لیکن ایسی صورت بھی ممکن ہے کہ کسی کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں،عقل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو دوزخ میں نہ ڈالا جائے، اس لیے یہ لوگ خدا کی رحمت اور اس کے نیک بندوں کی شفاعت سے جنت میں داخل کیے جائیں گے، اسی طرح ایمان و عمل صالح اور تو بہ و اصلاح کی زندگی گزارنے والے بھی، جن سے کوتاہی یا غفلت ہوئی ہو، وہ شفاعت کی توقع رکھ سکتے ہیں اور خدا کی رحمت سے بعید نہیں کہ یہ لوگ بخشے جائیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں صراحت ہے کہ ایمان رکھنے والوں اور عمل صالح کرنے والوں سے اگر کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور وہ اس کو اوڑھنا بچھونا نہیں بنالیتے بلکہ گناہ کے فوراً بعد توبہ کرلیتے ہیں تو ان کی توبہ قبول کرلی جائے گی اور ان کا گناہ معاف کردیا جائے گا، لیکن جو لوگ گناہ کرتے رہیں اور متواتر گناہ کرنے کے کافی عرصہ بعد توبہ کریں، ان کی توبہ کی قبولیت کے متعلق قرآن خاموش ہے؛ایسے لوگ بھی شفاعت کی توقع کرسکتے ہیں،اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ شرک والحاد کی زندگی گزارنے والوں کے لیے کوئی شفاعت نہیں ہوسکتی؛ جنہوں نے ساری زندگی خدا کے باغی کی حیثیت سے گزاری یا ایمان کے مدعی تو رہے مگر ساری زندگی باطل کی پیروی اور خدا و رسول اور اہلبیت علیہم السلام کی نافرمانی میں گزاری، پھر انہیں توبہ کی توفیق بھی نہ ہوئی تو یہ لوگ کس بنیاد پر شفاعت کی توقع کرسکتے ہیں؟؟۔
قرآن مجید پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت کا مقام ایک منصب تکریم و تشریف ہوگا جس پر اللہ ٰ صرف ان لوگوں کو سرفراز فرمائے گا جو اس اکرام و اعزاز کے سزاوار ہوں گے، ان میں سرفہرست انبیاء و رسل اور آئمۂ اہلبیت علیہم السلام ہوں گے، ان کے بعد شہدائے اُمت، صدیقین و صالحین کو یہ عزت حاصل ہوگی۔ یہ لوگ بھی خدا کی اجازت سے شفاعت کریں گے اور صرف ان لوگوں کے لیے کریں گے جن کے لیے اللہ اجازت مرحمت فرمائے گا اور یہ اپنی شفاعت میں وہی بات کہیں گے جو بالکل حق ہوگی۔
شفاعت کی اُمید اگر کرسکتے ہیں تو وہ لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے زندگی ایمان و عملِ صالح اور توبہ و اصلاح کی گزاری لیکن کوتاہی، غفلت یا جذبات سے مغلوب ہوکر نیکیوں کے ساتھ غلطیاں بھی کرتے رہے، اس طرح کے لوگ اُمید ہے کہ اللہ کی رحمت کے سزاوار ٹھہریں اور نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم و آلِ نبی علیہم السلام کی شفاعت سے بخش دئیے جائیں۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے شفاعت کے بل پر گناہوں ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے اور یہود کی طرح اُمیدوار ہیں کہ ہم (امت مرحومہ ہیں) ہمارے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے تو قرآن کی روشنی میں اس خوش فہمی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
«۴» گناہانِ کبیرہ سے پر ہیز کرنا: یہ بھی گناہان صغیرہ کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے ۔
«۵»عفو خدا وندی : یہ بھی بعض صاحب استعداد افراد کو میسر آتی ہے ؛عفو الٰہی اس کی مشیت کے ساتھ مشروط ہے ، یہ کوئی عمومی اور بلاقید و شرط مسئلہ نہیں ہے ،اس کی مشیت اور ارادہ صرف ایسے افراد کے بارے میں ہے جو عملی طو رپر کسی نہ کسی طریقے سے اپنی قابلیت اور اہلیت ظاہر کرتے ہیں ۔
3–وَ عَمَـلى فیـهِ مَقْـبُـولاً:
لوگوں میں ’’مقبول ‘‘ ہونا …عوام میں مقبول ہونا ، میڈیا پر مقبول ہونا…نہ کوئی فخر ہے، نہ کوئی کمال …نہ کوئی نیکی ہے اور نہ کوئی کام آنے والی چیز… عوامی مقبولیت کا شوق خطرناک ہے…یہ شوق دینداروں کے لئے زہر اور ناکامی ہے…یہ اخلاص کا جنازہ…ترقی کی راہ میں رکاوٹ…اور بربادی ہے… ہاں! اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت ہو…پھر وہ اپنے فضل سے اپنے مخلص بندوں میں بھی کسی کو مقبول بنا دے، محبوب بنا دے تو یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے…اُس کا فضل ہے…
4–وَ عَیْـبى فیـهِ مَسْتُـوراً:
عیوب کی پردہ پوشی خداوندعالم کے صفات میں سے ایک بہترین صفت ہے اسی لئے پروردگارعالم کو " ستارالعیوب " کہا جاتا ہے اور جو شخص لوگوں کے عیوب کو چھپاتا ہے وہ خداوندعالم کا آئینہ بن جاتا ہے ۔ روایت میں آیا ہے کہ قیامت کے دن پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم خداوندعالم سے سفارش کریں گے کہ خدایا، میری امت کے افراد کا حساب و کتاب فرشتوں ، پیغمبروں اور دوسری امتوں کے سامنے نہ کرنا۔ پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم خداسے یہ چاہتے ہیں کہ میری امت کے افراد کا اس طرح حساب و کتاب کرنا کہ تیرے اور تیرے پیغمبر کے علاوہ کوئی بھی ان کی گناہوں اور عیوب سے آگاہ نہ ہوسکے۔
جب پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم خداوند عالم سے درخواست کریں گے تو خداوندعالم جواب میں فرمائے گا : اے میرے حبیب، میں اپنے بندوں پر تم سے زیادہ مہربان ہوں کیونکہ جس طرح تمہاری یہ خواہش و آرزو ہے کہ تمہاری امت کے افراد کے عیوب و گناہ تمہارے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہوں اسی طرح مجھے بھی پسند نہیں ہے کہ تم بھی اپنی امت کے افراد کی لغزشوں اور گناہوں سے آگاہ ہواس لئے میں خود ہی تنہائی میں ان کا حساب و کتاب کروں گا اور اعمال کے مطابق انہیں جزا یا سزا دوں گا اور میرے علاوہ کوئی بھی ان سے آگاہ نہیں ہوگا۔
بہت سی دعاؤں میں خداوندعالم کی اس صفت کی تعریف و تمجید ہوئی ہے کہ پروردگارعالم لوگوں کے عیوب کو پوشیدہ رکھتا ہے جیسا کہ فرزند رسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی عظیم کتاب صحیفہ سجادیہ کی سولہویں دعا میں آیا ہے کہ : اے میرے خدا، میں تیری حمد و ثناء بجا لاتا ہوں اور تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تونے میرے بے شمار عیوب پر پردہ ڈالا اور مجھے ذلیل و خوار نہیں کیا اور کتنے ہی میرے گناہوں کو چھپایا اور اسے ظاہر نہیں کیا، خدایا کتنی ہی برائیوں کا میں مرتکب ہوا مگر تونے عزت و آبرو کے پردے کو چاک نہ کیا اور نہ ہی میرے عیوب کی جستجو میں رہنے والے ہمسایوں اور ان نعمتوں پر جو تونے مجھے عطا کی ہیں حسد کرنے والوں پر ان برائیوں کو ظاہر کیا ہے۔
مشہور و معروف دعا دعائے جوشن کبیر جو پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلّمپر نازل ہوئی ہے اس میں ہم پڑھتے ہیں: :یامن اظھر الجمیل و ستر القبیح؛ اے وہ خدا جس نے اچھائیوں کو ظاہر کیا اے وہ خدا جس نے برائیوں کو چھپایا.
دعا کے اس جملے کی تفسیر میں فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے ایک خوبصورت روایت نقل ہوئی ہے جس میں آپ ارشاد فرماتے ہیں : ہر مومن کی زمین کی طرح عرش پر بھی ایک شکل و صورت ہے ، جب بھی بندہ ٔمومن کوئی نیک کام جیسے رکوع ، سجود اور دوسرے نیک امور انجام دیتا ہے تو اس کے نیک اعمال کی شکل عرش پر ظاہر ہوتی ہے اور ملائکہ اسے دیکھتے ہیں اور اس پر درود و سلام بھیجتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ اس کی مغفرت کی دعا بھی کرتے ہیں لیکن اگر یہ شخص کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو خداوندعالم اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیتا ہے تاکہ ملائکہ اسے دیکھ نہ سکیں لہذا خوشنودی خدا کے لئے ہمیں ہمیشہ گناہوں سے پرہیز کرنا چاہیئے اور دوسروں کے عیوب پر نظر کرنے سے پہلے اپنے عیوب پر نظر رکھنا چاہیئے ۔
5–یا أَسْـمَعَ السّـامِعـینَ:
اے ہر ایک پکار پر گوش برآواز رہنے والے میرے خدا، اے سب سے زیادہ سننے والے میرے معبود! میری کوششوں کو سعئ مشکور بنادے، گناہوں پر خط عفو کھینچ دے میرے اعمال کو شرف قبولیت عطا کردے اور میرے عیوب کو اپنے دامن کرم میں چھپالے۔۔۔
نتائج دعا کا پیغام:
1- ثوابِ الهی کی درخواست؛
2- گناہوں کی بخشش کا سوال؛
3- ماہِ رمضان میں اعمال کی قبولت کی خواہش؛
4- خدا کی جانب سے عیوب کو چھپانے کی درخواست۔
منتخب پیغام:
خدا کی اہم ترین صفت میں سے ایک اسکا ستّار العیوب ہونا ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو ہر یہ ذلیل و رسوا ہوجائے۔
ایسا کون سا کام ہم انجام دیں کہ خدا ہمارے عیوب کو پوشیدہ رکھے؟ ایک شخص رسول خداسے کہتا ہےکہ میں چاہتا ہوں کہ خدا میرے عیوب کی پردہ پوشی کرےآپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا: «اپنے بھائیوں کے عیوب کو پوشیدہ رکھ تاکہ خدا بھی تیرے عیوب کو پوشیدہ رکھے[4]۔»
📚حوالہ جات
[1] – الإنسان، 22
[2] – شوریٰ ۔25
[3] – ہود۔114
[4]– متقی هندی، کنزالعمال، ح 4415